...

9 April 2024

شنچیانگ کا نیا پائلٹ فری ٹریڈ زون



 

 

چین کی ریاستی کونسل  نےشنچیانگ میں جس پائلٹ فری ٹریڈ زون  کوگزشتہ سال اکتوبر میں منظوری دی تھی نےنومبر کے پہلے ہفتہ سے کام کرنا شروع کردیا ہے۔  ملک کے شمال مغربی علاقے میں بننے والا یہ پہلا فری ٹریڈ زون  تقریباً 180 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے جس میں ارومچی، کاشغر اور خورگوس کے علاقے شامل ہیں۔ اس اسکیم کے تحت، ارومچی کو تجارت اور لاجسٹکس کا مرکز قراردیا گیا ہے جب کہ کاشغر اور خورگوس بالترتیب ایسی صنعت جس میں زیادہ مزدورں درکار ہوتے ہیں) جیسےکپڑے اوراور فوڈ پروسیسنگ کی صنعت) اور سرحد پار تجارت کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل معیشت کی ترقی پر توجہ مرکوز کریں گے۔

اس پائلٹ فری ٹریڈ زون  کو ترقی  کے نئے پروجکٹ  کے طور پر بھی سمجھا جا سکتا ہے کیو ں کہ 2010 میں مغربی علاقائی ترقیاتی پروگرام کے تحت کاشغر اور خورگوس میں دو خصوصی اقتصادی زون قائم کیے گئے تھے۔ خورگوس ایک ضلع کی سطح کا شہر ہے اورقازقستان کی سرحد پر واقع ہے۔ 2011 میں قازق حکومت نے اپنی سرحد کے اندر  ایک اقتصادی زون قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ جغرافیائی طور پر اہم ہونے کی وجہ سے ایک ساتھ یکساں طور پر فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ترکمانستان اور قازقستان سے چین تک 1833 کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن اسی شہر سے ہوکر گزرتی ہے۔ قازق زون کو ایک دوسرے چینی صوبے چیانگ سو کی حکومت اور قازقستان کی قومی ریلوے کمپنی قازقستان تیمر زولی نے مشترکہ طور پر تعمیر کیا تھا۔یہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آرآئی) کا ایک حصہ ہے اوراس بنیادی ڈھانچے کی ترقیاتی پروگرام کےایک بڑے حصےمیں ایک خشک بندرگاہ شامل ہے جس میں ریل کارگو کنیکٹیویٹی ہے جو وسطی ایشیا کو چین سے ملاتی ہے۔ 

پائلٹ فری ٹریڈ زون  کے قیام کے مقاصد میں وسطی ایشیا میں بی آرآئی کو مزید مضبوط بنانا، یورپ کے ساتھ مصروفیات  بڑھانا اور چین کے شمال مغرب میں اقتصادی راہداری کو کھولے رکھنا شامل ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی اور حکومت نے دوسرے ممالک  کی ادائیگیوں میں چینی کرنسی یوآن کے استعمال کو فروغ دینےکی کوشش کی ہے اور شنچیانگ میں  ان  اقتصادی سرگرمیوں سے  اس ہدف  کے حصول میں مدد مقصود ہے۔ اس سال جنوری کے آخر میں چینی سرکاری میڈیا نے فری ٹریڈ زون میں موٹرسائیکلوں کے لیے دو پروڈکشن لائنوں کے افتتاح کے بارے میں خبر دی تھی جس میں قازقستان سے موصول ہونے والے پہلے بڑے آرڈر  اورمستقبل میں مزید آرڈر کا وعدہ شامل تھا۔

پائلٹ فری ٹریڈ زون کا اقتصادی تجربہ

شینچانگ میں تعمیر ہونے والا یہ فری ٹریڈ زون چین میں اپنی نوعیت کا 22 واں ٹریڈ زون ہے۔ سب سے پہلافری ٹریڈ زون شنگھائی میں ایک دہائی قبل 2013 میں قائم کیا گیا تھا۔ عالمی مالیاتی بحران سے پیدا ہونے والی بیرونی غیر یقینی صورت حال اور داخلی چیلنجز  جیسے بڑی صنعتوں میں ضرورت سے زیادہ پیداوار، مقامی قرضوں کی بڑھت، بے روزگاری اور ماحولیاتی خرابیوں  جیسے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے چین  نے اپنی اقتصادی پالیسیوں کے لیے تین جہتوں کی نشاندہی کی تھی۔ ان پالیسیوں میں  ترقی کا استحکام، معیشت کے ڈھانچے کی تبدیلی اور اصلاحات کا فروغ  شامل ہیں۔فری ٹریڈ زون  سےاقتصادی اصلاحات کو مزید بہتر کرنے کے راستے کھلتے ہیں۔ عام اسپیشل اکنامک زون کے برعکس  جس کا چین 1978 کے بعد اپنی اصلاحات اور اورآزاد معیشت کے ابتدائی سالوں میں سرخیل رہا ہے،  فری ٹریڈ زون کا مقصد صنعتی تبدیلی کے لیے پالیسی جدت اور تجربات کے ذریعے ادارہ جاتی جدت، ہم آہنگی کا فروغ (خاص طور پر خدمات کے شعبے میں)، اصلاحات کا فروغ اور تکنیکی تحقیق کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ 

فری ٹریڈ زون  کی ساری ذمہ داری ریاستی کونسل پر ہے اور وزارت اقتصادیات رابطہ کاری میں معاون ہے۔ جب کہ صوبائی یا میونسپل حکومتیں متعلقہ فری ٹریڈ زون  کے نفاذ اور ترقی کی ذمہ دار ہیں۔ ادارہ جاتی اختراع پر ایک مشترک فریم ورک کے علاوہ ہر ایک فری ٹریڈ زون  کے پاس ہر صوبے کی مسابقتی پوزیشن، مقامی حالات کی خصوصیات اور تجارتی شاہراہوں یا بین الاقوامی سرحدوں کے قریب ہونے کی وجہ سے فوائد کی بنیاد پر علاقائی تخصصات ہیں۔ اس کے علاوہ ان فری ٹریڈ زون  کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے بھی ڈیزائن کیا گیا ہے جس سے چین  کی عالمی معیشت سے ہم آہنگی مزید بہترہوئی ہے۔ مجموعی طور پریہ سارے فری ٹریڈ زون  اب ملک کے 22 صوبوں کے 54 شہروں پر محیط ہیں۔ 

شنچیانگ اور  اعلیٰ معیار کی ترقی 

سال 2019 سے چین نےاپنے سرحدی علاقوں میں  شعوری طور پر فری ٹریڈ زون تعمیر کرنا شروع کیا ہے۔ان میں  شمال مشرق میں (روس کی سرحد سے متصل صوبہ ہیلونگ چیانگ)، جنوب مغرب میں (لاؤس، میانمار اور ویتنام سے متصل صوبہ یونان) اور جنوب میں (کوانگشی صوبہ، جس کی سرحد بھی ویت نام سے ملتی ہے) شامل  ہیں۔ لہذاشنچیانگ  میں فری ٹرید زون کا قیام کوئی نئی پہل نہیں ہے۔اس سے ان پسماندہ علاقوں کی ترقی کے علاوہ   اس کا مقصد سرحدی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر کرنا اور بی آر آئی کو وسعت دینا ہے۔ نئے فری ٹریڈ زون کے قیام کی رفتار میں اضافہ کو  چینی حکومت کےامریکہ-چین تجارتی جنگ اور دنیا کے دوسرے حصوں میں سرمایہ کاری کی منتقل کرنے کے اقدامات کے پس منظر میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ 

چینی کمیونسٹ پارٹی  کے جنرل سکریٹری شی چن پھنگ نے غالبا لوگوں کی فلاح و بہبود ، چین  کےبیرونی اقتصادی خطرات کے خلاف تیار ہنے کو یقینی بنانے اور تیز رفتار ترقی کے بجائے 'بہتر ترقی' کے راستے کا انتخاب کرنے کے لئے'جدید، مربوط، سبز، شفاف اور جامع ترقی' کا حوالہ دیتے ہوئے 'اعلی معیار کی ترقی' کے فروغ پر مسلسل زور دیا ہے۔ حکومت اور پارٹی کا سماجی و سیاسی مسائل کے معاشی حل تلاش کرنے کے یقین کے پیچھے یہ ذہن کارفرما ہے کہ ترقی کے عدم توازن کو مزید ترقی کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ فری ٹریڈ زون کا قیام اس کی ایک مناسب مثال ہے۔

شنچیانگ میں قائم فری ٹریڈ زون  نے 8 فروری 2024 کو اپنے قیام کے 100 دن مکمل کر لیے۔ صوبائی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اس کے تین ذیلی مراکز  کاشغر، ارومچی اور خورگوس  میں اس عرصے میں 2000 سے زیادہ کاروباری ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ گھریلو پیداوار اور تجارتی سرگرمیوں میں ان کے اہم جگہ پر ہونے کی وجہ سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ارومچی کافوکس سوتی دھاگے کی پیداوار اور دواسازی پر رہا ہے۔ کاشغر نے سرحد پار ای کامرس اور روڈ ریل انٹر موڈل ٹرانسپورٹیشن کو ترجیح دی ہے۔ اور خرگوس نے لیتھیم بیٹریوں اور الیکٹرانکس کے دیگر اجزاء کی صنعتوں پر زور دیا ہے۔ کاروباری ادارے جو فری ٹریڈ زون میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں کے لئےانجینئرنگ مشینری اور روایتی چینی ادویات دلچسپی کے شعبے ہیں۔ 

فری ٹریڈ زون  کو جدید ٹیکنالوجی جیسے کہ بگ ڈیٹا، بلاک چین، مصنوعی ذہانت وغیرہ کا استعمال کرکے ثقافتی اور سیاحتی خدمات کے پلیٹ فارم بنانے کی کوششیں بھی جاری ہیں تاکہ  بیرون ملک منڈیوں پر بھی اثر ات مرتب کئے جاسکیں اور چین کے ثقافتی سرمائے کو جلا بخشی جاسکے۔ شنچیانگ کی صوبائی حکومت نے خطے کو مزید کھولنے اور تجارت اور سرمایہ کاری میں سہولت فراہم کرنے کے لیے فری ٹریڈ زون سے بڑی امیدیں وابستہ کررکھی ہیں۔ اس عزم کا اظہار جنوری 2024 کے آخر میں 14ویں علاقائی عوامی کانگریس کی کارکردگی  رپورٹ میں کیا گیاہے۔ دیگر سرحدی علاقوں میں پہلےسے قائم کیے گئے فری ٹریڈ زون کے مقابلے میں شنچیانگ اپنے تزویراتی محل وقوع کے لحاظ سےتجارت اور رابطے کے حوالے سے انتہائی اہم اور نفع بخش ہے۔ آٹھ ممالک کی سرحدیں یہاں چین سے ملتی ہیں اور چین میں سب سے زیادہ زمینی بندرگاہیں اسی صوبہ میں واقع ہیں۔ مزید یہ کہ وسطی ایشیا کے سڑک اور ریل رابطے چین کو یورپی منڈیوں سے جوڑنے میں معاون ہیں۔

خلاصہ

گرچہ چینی حکومت شنچیانگ کے روایتی  بزنس جیسے سولر پینل کی تیاری اور کپاس کی افزائش کو باقی رکھے تب بھی پائلٹ فری ٹریڈ زون صوبہ میں اقتصادی حکمت عملی کے مسلسل تنوع کے پروگرام کے تحت آسکتا  ہے ۔ تاہم شنچیانگ کی معیشت اویغور اور دیگر نسلی اقلیتوں پر مبینہ جبر پر مغربی ممالک کی  سخت جانچ پڑتال سے بھی متاثر ہوئی ہے۔ لہذا بنیادی ڈھانچے کی ترقی، صنعتوں کی افزائش اور روزگار کی فراہمی کے مقاصد کے ساتھ ساتھ فری ٹریڈ زون بلاشبہ منفی بین الاقوامی میڈیا کے سامنے صوبے کی امیج کو بہتربنانے  کی ایک اور کوشش ہے۔


نوٹ: یہ مضمون دراصل انگریزی زبان میں لکھا گیا ہے۔ اس کا ترجمہ ابوظفر نے کیا ہے۔ اصل انگریزی مضون
کا حوالہ درج ذیل ہے۔

Krishnan, Anand. 2024. ‘Resolving Imbalances through More Development: Xinjiang’s New Pilot Free Trade Zone’. Centre of Excellence for Himalayan Studies, Shiv Nadar Institution of Eminence. Commentary. 29 February 2024.