
30 January 2025
ڈیجیٹل بھارت ندھی: ایک شروعات جسے مزید ترقی کی ضرورت ہے
اگست 2024 کے آغاز میں، ہندوستان کی وزارت مواصلات کے ٹیلی کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ نے ڈیجیٹل بھارت ندھی (DBN) کے عملی نفاذ کے لیے کچھ ابتدائی اصولوں کا اعلان کیا تاکہ ہندوستان کے ان علاقوں میں ٹیلی کام کنیکٹیوٹی بڑھائی جا سکے، جو اب تک "ڈیجیٹل دور" میں بھی غیر متصل رہے ہیں۔ اس کے بعد 4 جولائی کو ان اصولوں پر مبنی ایک ڈرافٹ شائع کیا گیا اوراس پر عوام سے 30 دن کے اندر مشورے لینے کا عمل شروع ہوا۔ ڈی بی این سے متعلق دفعات ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ، 2023 کے سیکشن 24تا26، باب V میں شامل ہیں جو گزشتہ سال دسمبر میں پارلیمنٹ سے منظور ہواتھا۔ یہ سابقہ یونیورسل سروس اوبلگیشن فنڈ (USOF) کی جگہ لے رہا ہے، جسے ٹیلی گراف (ترمیمی) ایکٹ، 2003 کے ذریعے قانونی حیثیت دی گئی تھی۔ اور اس کے ذریعہ تمام ٹیلی کام آپریٹروں پر حکومت کی پانچ فیصد یونیورسل سروس لیوی کے ذریعے فنڈز جمع کیے جاتے ہیں۔ یو ایس او ایف کا تصور 1837 میں برطانیہ میں یونیورسل سروس اوبلگیشن کے ملتے جلتے تصور سے آیا تھا، جس نے پوسٹل سروسز کی ترقی اور توسیع کی اجازت دی اور اس طرح ایک حقیقی عوامی فائدے کو جنم دیا۔
یو ایس او ایف اور اس کے نئے روپ ڈی بی این کا مقصد ان علاقوں میں ٹیلی کمیونیکیشن خدمات کی توسیع اور بہتری کے لیے مالی معاونت فراہم کرنا ہے جہاں اس طرح کی سہولیات کمیاب ہیں یا وہ علاقے جو دور دراز ہیں۔ اس میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جو ٹیلی کام آپریٹرز کے لیے آمدنی کے لحاظ سے فائدہ مند نہیں سمجھے جاتے۔ ڈی بی این کے نفاذ کے لیے 800 بلین روپئے (9.47 ارب امریکی ڈالر) مختص کیے گئے ہیں، جس کے تحت حکومت نے ایک منتظم مقرر کیا ہے جو بولی لگا کر یا درخواستیں طلب کر کے منصوبوں کو عمل میں لانے والے افراد کا انتخاب کرے گا۔ اس کا مقصد ٹیلی کمیونیکیشن خدمات، بشمول موبائل اور براڈبینڈ کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، ساتھ ہی ضروری ٹیلی کمیونیکیشن سازوسامان کی فراہمی، ٹیلی کام سکیورٹی میں بہتری، ایسی خدمات تک رسائی ، اس کی قیمت کو اس لائق بنانا کہ لوگ اس کو استعمال کرسکیں اور مستقبل کی ٹیلی کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کو متعارف کرانا ہے۔ اس کا مقصد مقامی ٹیکنالوجی کی ترقی میں جدت اور تجارتی بنیادوں پر ترقی ، ملک کی ضروریات کے مطابق ضروری معیار کا قیام، اسٹارٹ اپس کا فروغ اور ٹیلی کمیونیکیشن کے نظام میں مختلف فریقوں کے درمیان موجود خلا کو پر کرنا ہے۔
سرحدی علاقوں میں ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنا
ہندوستان میں ڈیجیٹل تقسیم، جو کووڈ-19 وبا کے دوران مزید بڑھ گئی تھی، ملک کے سرحدی علاقوں کے لیے اور بھی زیادہ اہم ہے، جہاں حکومت ان علاقوں کو "دور دراز علاقہ" کہنے کی بجائے "ملک کے پہلے گاؤں" کے طور پر نیا نام دے رہی ہے۔ یہ ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں اور ہمالیائی علاقوں کے لیے خاص طور پر اہم ہے۔ ان علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل کے ایشو پر پچھلے کچھ سالوں میں خاص زور دیا گیا ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہیں صرف عالمی سیاست یا جغرافیائی تناظر سے دیکھنے کی بجائے، زیادہ حقیقی اور پالیسی پر مبنی جوابات کی ضرورت ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کا تعلق صرف رفتار اور بات چیت کی آسانی سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق معلومات اور مواصلات کی ٹیکنالوجی کے ذریعے حکومت کی خدمات اور فلاحی اسکیموں تک رسائی حاصل کرنے سے بھی ہے، جو ایک جدید ڈیجیٹل حکومت کے نظام میں فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کا تعلق خاص طور پر سرحدی علاقوں میں رہنے والے افراد سے ہے، جہاں محدود ٹیلی کمیونیکیشن خدمات شہریوں کو عوامی فوائد حاصل کرنے سے روک رہی ہیں۔ تینوں اہم غیر حکومتی ٹیلی کام سروس فراہم کنندگان کی خدمات کا معیار بھی ان کے بڑھائے گئے ٹیرف منصوبوں کا جواز نہیں فراہم کرتا۔
یو ایس او ایف کے تحت، اور اب ڈی بی این کے تحت، سرحدی علاقوں میں 354 'غیر سروس یافتہ' گاؤں میں موبائل سروس فراہم کرنے کے لیے منصوبے بنائے گئے ہیں، جن میں جموں و کشمیر، لداخ، ہماچل اور اتراکھنڈ شامل ہیں، اور اس پر تقریباً 3.37بلین روپے (0.04 ارب امریکی ڈالر) لاگت آئے گی، جس کے لیے 2020 میں ایک معاہدہ کیا گیا تھا، جس میں عمل درآمد ایجنسی کے طور پر ریلائنس جیو انفوکام لمیٹڈ (آر جے آئی ایل) کو منتخب کیا گیاتھا۔ اس منصوبے کے تحت، 319 گاؤں میں 295 موبائل ٹاورز کی تنصیب کے ساتھ انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی گئی ہے جب کہ24 مزید گاؤں میں کام جاری ہے۔ ایک اور پروگرام شمال مشرقی علاقے کے لیے جامع ٹیلی کمیونیکیشن ترقیاتی منصوبہ(Comprehensive Telecom Development Plan) ہے، جس کا مقصد اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، سکم اور تریپورہ کی ریاستوں میں دریافت شدہ غیر سروس یافتہ گاؤں اور ان ریاستوں میں قومی شاہراہوں پر موبائل سروس فراہم کرنا ہے، جس کے لیے بھارتی ایئرٹیل لمیٹڈ/بھارتی ہییکسا کام لمیٹڈ (بی ایچ ایل) کے ساتھ معاہدہ کیا گیا ہے۔ سال 2021 میں اسی طرح کے معاہدے اروناچل پردیش اور آسام کے دو اضلاع (کاربی آنگلونگ اور دیما ہساؤ) میں 4 جی سروسز کو بڑھانے کے لیے 1511 موبائل ٹاور کی تنصیب کےلیے بی ایچ ایل اور آر جے آئی ایل کے ساتھ کیا گیا تھا ۔
تبت میں 5جی سروس
ہندوستان تمام سرحدی علاقوں میں 2025 تک مکمل 4جی کنیکٹیویٹی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جب کہ ہمالیائی علاقے کے پار چین تبت میں 5جی سروس کو عملی طور پر شروع کرنے کے لیے پہلے ہی ایک قدم آگے بڑھ چکا ہے ، جہاں نومبر 2022 کے اختتام تک صارفین کی تعداد سات لاکھ 98 ہزار سے زیادہ تھی اور 5جی بیس اسٹیشنز کی تعداد آٹھ ہزار سے تجاوز کر گئی تھی۔ دراصل تبت نے 2019 میں اپنی پہلی 5جی بیس اسٹیشن کی تنصیب کی تھی۔ اکتوبر 2023 تک تبت کے خودمختار علاقے کے تمام حصوں تک 5جی سروس کی رسائی حاصل ہو چکی تھی جس میں علاقائی حکومت نے 5جی کی تعمیر میں 3.68 بلین یوآن (0.51 بلین امریکی ڈالر) کی سرمایہ کاری کی تھی، جس کے تحت 10 ہزار 67 فائیو جی بیس اسٹیشن قائم کیے گئے، 2.27ملین 5جی موبائل فون ٹرمینل کو آپس میں جوڑا گیا اور اس علاقے میں ہر 10 ہزار افراد کے لیے ستائیس 5جی بیس اسٹیشن موجود ہیں۔ اس طرح کی تیز رفتار اعلیٰ معیار کی انٹرنیٹ سروس نے خاص طور پر ای کامرس کی صنعت اور ڈیجیٹل ادائیگی میں کافی فائدہ پہنچایا ہے۔ چین کا منصوبہ ہے کہ 2025 کے آخر تک وہ تمام سرحدی علاقوں میں 5جی سروس کی توسیع مکمل کر لے گا۔
لائن آف ایکچول کنٹرول (LAC) سے آگے تک موبائل سروس کی توسیع اور پھیلاؤ کی اہمیت ہندوستان کے لیے صرف ایک جیوپولیٹیکل چیلنج سے زیادہ ہونی چاہیے۔ اس کا تعلق دراصل سرحدی علاقوں کے شہریوں کی آوازوں اور مطالبات کے تئیں جوابدہی سے ہے اور ان شہریوں کو ترقی کے عمل میں فعال طور پر شریک بنانا ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور فزیکل کنیکٹیویٹی (جیسے سڑک، سرنگ اور پل) کے ساتھ ساتھ مقامی معیشت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات (جیسے "وائبرنٹ ولیجز" منصوبہ یا ایڈونچر سیاحت کے منصوبے) اور روزگار کے مواقع کی فراہمی کے ذریعہ دراصل مقامی آبادی جو ہجرت کر گئی ہے کی واپسی کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔ ڈی بی این اس وسیع سرحدی علاقے کی ترقی کے پروگرام کا ایک اہم جزو ہے۔
بہت سارا کام ابھی باقی ہے
سرحدی علاقوں میں ٹیلی کام انفراسٹرکچر قائم کرنا اور ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی کو بڑھانا بلا شبہ ایک مشکل کام ہے۔ جہاں ایک طرف دشوار گزار علاقے اور زمین کی حالت بڑی رکاوٹ ہیں، وہیں آپٹیکل فائبر کیبل بچھانے اور موبائل ٹاورز نصب کرنے میں اراضی اور جائیداد کی ملکیت سے متعلق مقامی حساسیتیں اور ضوابط بھی مشکلات پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ہندوستا نی فوج سے کلیئرنس بھی کئی اہم منصوبوں کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اگرچہ فوج اب شہری خدمات کے لیے اپنے موبائل پلیٹ فارم اور ٹیکنالوجی دینے کے لیے تیار ہےلیکن ٹیلی کام سروس فراہم کنندگان اپنے کام میں مزید سہولت چاہتے ہیں۔ جیسے تمام آپریٹرؤں کے لیے راستے کا حق (Right of Way) اور مقامی انفراسٹرکچر فراہم کنندگان پر سخت نگرانی۔ دراصل ٹیلی کام سروس فراہم کنندگان نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ڈی بی این اپنے اہداف اور عزائم کے لحاظ سے سست اور ناکافی ہے۔ اگر پورے ملک میں یکساں ترقی جس میں کوئی بھی علاقہ نہ چھوٹے مقصود ہے تو ڈی بی این جیسے اقدامات ابھی بہت کچھ کر دکھانے سے کافی دور ہیں۔
Original: Anand P Krishnan. 2024. ‘The Digital Bharat Nidhi: A Starting Point that Needs to Scale Further Up’. Centre of Excellence for Himalayan Studies, Shiv Nadar Institution of Eminence. Commentary. 22 November.
Translated by Abu Zafar
Share this on: