
7 May 2025
چین کی عالمی برتری میں پرائیویٹ شعبہ کا کلیدی کردار
اس سال فروری کے وسط میں چین کے صدر شی جن پنگ نے بیجنگ میں ایک سمپوزیم میں ملک کے پرائیویٹ یا نجی کاروباری رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اس سمپوزیم میں شامل کئی شرکاء کا تعلق ٹیکنالوجی کمپنیوں سے تھا جو چینی کمیونسٹ پارٹی اور حکومت کے نئے ترقیاتی فلسفہ (xin fazhan linian) کے تحت کام کرنے والے ادارے سمجھے جاتے ہیں۔اس فلسفے کے مطابق معاشی ترقی میں معیار کو مقدار پر ترجیح دی جاتی ہے اور جدت، ہم آہنگی، ماحولیاتی تحفظ اور شفافیت پر زور دیا جاتا ہے۔ اس نوعیت کی اعلیٰ معیار کی ترقی کا مقصد چین کو عالمی ویلیو چین میں بلند مقام تک لے جانا ہے۔
چین کے ریاستی ادارے برائے مارکیٹ ریگولیشن کے مطابق 2024 میں ملک میں نجی کمپنیوں کی تعداد 5 کروڑ 50 لاکھ سے زائد تھی۔ نجی شعبہ 50 فیصد سے زیادہ ٹیکس آمدنی، 60 فیصد سے زیادہ مجموعی قومی پیداوار (GDP)، 70 فیصد سے زیادہ تکنیکی اختراع، 80 فیصد سے زیادہ شہری روزگار اور 90 فیصد سے زیادہ کل کاروباری اداروں پر مشتمل ہے۔ (اس کے مقابلے میں ہندوستان کے نجی شعبے کا حصہ ٹیکس آمدنی میں 36 فیصد، جی ڈی پی میں 91 فیصد، تکنیکی اختراع میں 36 فیصد، روز گار میں 11 فیصد اور رجسٹرڈ کاروباری اداروں کی کل تعداد میں 95 فیصد سے زائد ہے۔)
شی جن پنگ نے سمپوزیم میں جن نکات پر زور دیا ان میں ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ کمپنیوں کو حب الوطنی کو اپنانا چاہیے۔ اس بات کو مارچ میں نیشنل پیپلس کانگریس کے سالانہ اجلاس کے دوران وزیر اعظم لی چیانگ نے اپنی کارکردگی رپورٹ میں مزید واضح کیا۔ انہوں نے کمپنیوں سے کہا کہ وہ اپنے کارپوریٹ نظام کو بہتر بنائیں تاکہ اپنی منفرد چینی شناخت کو نمایاں کر سکیں۔ چینی قیادت کی جانب سے اعتماد کا یہ اظہار دراصل ملک میں نجی سرمایہ کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا اعتراف ہے۔ کیوں کہ اس سے نہ صرف اندرونی ترقی آگے بڑھ رہی ہے بلکہ یہ چین کی عالمی پیش قدمی کے لیے بھی ایک مؤثر قوت بن چکی ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال چینی مصنوعی ذہانت کی کمپنی ڈیپ سیک (DeepSeek) کی جانب سے دو اوپن سورس ماڈلز کا اجرا ہے، جو امریکی حریف اداروں جیسے OpenAI، Meta اور Google کی بالادستی کو چیلنج کر رہے ہیں (قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈیپ سیک کے سی ای او لیانگ وین فینگ بھی سمپوزیم میں شریک تھے)۔
نجی کمپنیوں کی بیرون ملک پیش قدمی
چین کی بیرونی سرمایہ کاری اب زیادہ تر اُن نجی کمپنیوں کے پھیلاؤ سے تحریک پا رہی ہے جو عالمی سطح پر وسعت کی خواہش رکھتی ہیں، اور جن کی توجہ اب بڑی آمدنی والے ممالک کے بجائے ابھرتی ہوئی مارکٹ کی طرف منتقل ہو چکی ہے۔ یہ کمپنیاں ویلیو چین کے مختلف شعبوں میں بین الاقوامی سطح پر سرگرم ہیں، جیسے کہ مقامی سطح پر پیداوار، فروخت اور خدمات کے نظام قائم کرنا۔چین کے جنرل ایڈمنسٹریشن آف کسٹمز کے مطابق 2024 میں چینی نجی اداروں نے چین کی بیرون ملک تجارت میں 24.33 ٹریلین یوآن (تقریباً 3.4 ٹریلین امریکی ڈالر) کی شراکت کی۔
چین کی نجی کمپنیاں اپنی جدید اور نفیس مصنوعات کے ذریعے عالمی صارفین سے مؤثر طور پر جڑنے میں کامیاب رہی ہیں اور وہ اس صنعتی سفارت کاری کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں جس کا مقصدماہر سماجیات کائل چان کے الفاظ میں یہ ہے کہ عالمی پیداواری نظام کو اس انداز سے دوبارہ ترتیب دیا جائے کہ بیجنگ اس کا مرکز بن جائے۔ یہ رجحان اُن جدید اور تکنیکی طور پر اہم صنعتوں میں نمایاں ہے جو ٹکنالوجی کی وجہ سے مربوط عالمی ماحول میں خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔ جیسے الیکٹرک گاڑیاں، کنزیومر الیکٹرانکس ، ڈیجیٹل آلات، لیتھیئم بیٹریاں اور سولر پینل۔
چین کی نجی کمپنیاں ان صنعتوں میں عالمی سپلائی چینز کے ایسے اہم اور مرکزی حصے بن چکی ہیں جنہیں الگ کرنا ممکن نہیں رہا، اور چین اسی حیثیت کو اپنے مسابقتی فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ان کمپنیوں کے ذریعے چین نے اس بات پر مسلسل توجہ دی ہے کہ صنعتی عمل کے پچھلے (خام مال اور پرزہ جات کی تیاری) اور اگلے (مصنوعات کی فروخت یا اگلی صنعتوں کو فراہمی) مراحل کو مربوط طریقے سے ترقی دی جائے — جیسے کہ مخصوص مشینری اور پرزے بنانا اور تکنیکی مہارت رکھنے والے افراد تیار کرنا — تاکہ وہ پورے صنعتی نظام پر جامع طور پر غلبہ حاصل کر سکے اور ساتھ ہی اپنی ٹیکنالوجی دوسروں تک پہنچنے سے روک سکے۔چینی اسمارٹ فون کمپنیوں کی یہ صلاحیت کہ وہ ہندوستان جیسے مخالف ماحول میں نہ صرف باقی ہیں بلکہ وہاں ایک وفادار صارفین کی بنیاد بھی قائم کرلیا ہےجو ان کی حالات کے مطابق ڈھلنے کا واضح ثبوت ہے۔
چین کی ہندوستان مخالف صنعتی حکمت عملی
ترقی پذیر دنیا میں چینی سرمایہ کاری کی کشش بیجنگ کو ایک نمایاں مقام عطا کرتی ہے اور اسے عالمی نظام میں اپنی مرکزیت کو مؤثر طور پر استعمال کرنے کا موقع دیتی ہے۔ یہ بات چین اور ہندوستان کے درمیان جغرافیائی سیاسی مقابلے میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے کیوں کہ ہندوستان کا صنعتی شعبہ حجم اور ترقی کے لحاظ سے چینی ماڈل سے مشابہت رکھتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں چین نے سپلائی چین میں اپنے تزویراتی مقام کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے — خاص طور پر مخصوص مشینری کی برآمدات محدود کر کے اور ان انجینئروں اور تکنیکی ماہرین کی نقل و حرکت روک کر جو سپلائر اداروں سے وابستہ ہیں۔ تاکہ ہندوستان کی صنعتی پیداوار، خصوصاً الیکٹرانکس کے شعبے میں، سست روی کا شکار ہو جائے۔اگرچہ ہندوستان بھر پور کوشش کر رہا ہے کہ غیر ملکی مینوفیکچرنگ کمپنیوں کے لیے ایک مؤثر متبادل بنے مگر اس کی صنعتی کوششیں اب بھی پرزے، آلات اور دیگر بنیادی اجزا کے لیے چین پر منحصر ہیں۔
اگرچہ ہندوستان اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اس کی معیشت کچھ حد تک چین کے ساتھ گہرے صنعتی روابط میں الجھی ہوئی ہے، پھر بھی اس نے درمیانی اور طویل مدتی منصوبہ بندی کے تحت مقامی سطح پر الیکٹرانکس سپلائر تیار کرنے اور پرزہ جات کی تیاری میں خود کفالت حاصل کرنے کی سمت میں ابتدائی اقدامات اٹھانے شروع کر دیے ہیں۔ تاہم قلیل مدتی تناظر میں چین اور اس کی نجی کمپنیوں کے کردار کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا اب بھی مشکل ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے شروع کی گئی ٹیرف جنگیں، جن کا مرکزی ہدف چین تھا اور جس کے جواب میں چین نے بھی اسی قسم کے اقدامات کیے سے ایسی صورت حال پیدا ہو گئی کہ چینی مصنوعات کا رخ ہندوستان کی طرف ہو گیا اور اس سے مال کی ’ڈمپنگ‘ (یعنی مقامی مارکیٹ میں غیر منصفانہ حد تک کم قیمت پر مصنوعات کی فروخت) کا خدشہ بڑھا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان کی مقامی صنعتوں کو نقصان پہنچا ہے، جو ملک کے صنعتی ترقی کے عزم کے لیے ایک دھچکا ہے۔ ہندوستان کے اکنامک سروے 2023-24 نے اس کمزوری کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر قابو پانے کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن ساتھ ہی چینی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کے ساتھ تعاون کے ذریعے مقامی مینوفیکچرنگ کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے پر بھی زور دیا۔
در حقیقت اگر ہندوستان کو عالمی سپلائی چین کا حصہ بننا ہے تو اسے لازمی طور پر چین کی سپلائی چین سے بھی جڑنا پڑے گا۔اگرچہ نئی ہندوستان نے عالمی تجارتی کشیدگیوں سے نمٹنے کے لیے اندرونی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا عمل شروع کر دیا ہے، تاہم اسے امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ بیک وقت تعلقات قائم رکھنے کے لیے نہایت احتیاط اور توازن کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا، کیوں کہ موجودہ عالمی اقتصادی و تجارتی نظام پیچیدہ اور باہم جڑا ہوا ہے۔
لہذا اس وقت ہندوستانی حکومت اور نجی شعبے کے پاس محض ایک موزوں موقع نہیں بلکہ ایک اہم موڑ ہے جہاں دونوں کو چاہیے کہ وہ باہمی اشتراک سے صلاحیت اور وسائل کو فروغ دیں اور تحقیق و ترقی (R&D) کے میدان میں سرمایہ کاری کریں۔ عالمی مینوفیکچرنگ میں طاقت کی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کے نجی شعبہ کا کردار انتہائی اہم ہے۔
Original: Anand P. Krishnan. 2025.‘The Private Sector is Driving China’s Global Dominance’. The Indian Express. 17 April.
Share this on: