...

17 November 2024

امریکی کسٹم پابندیاں اور چین پر انحصارسے ہندوستان کی سولر صنعت کودرپیش مسائل



اگست 2023 میں ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ امریکہ کی کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن ایجنسی(سی بی پی) نے اکتوبر 2023 سے ہندوستان سے آنے والے تقریباً 43 ارب امریکی ڈالر مالیت کے الیکٹرانک آلات خصوصاَ سولر پینلز، ضبط کیے ہیں۔ یہ کارروائیاں بائیڈن حکومت کی جانب سے دسمبر 2021 میں نافذ کیے گئے اویغور جبری مشقت روک تھام قانون (Uyghur Forced Labour Prevention Act (UFLPA)) کے تحت کی گئیں، جس کا مقصد چین ، بطور خاص شنچیانگ میں جبری مشقت سے مکمل یا جزوری طور پر تیار کردہ سامان کی درآمد کو روکنا ہے۔ سی بی پی کا اندازہ تھا کہ یہ پولی کرسٹل لائن سلیکان، جو سولر فوٹو وولٹائک (PV) ماڈیولز کی بیٹریوں/سیلز کے لیے خام مال ہے (اور دیگر سیمی کنڈکٹر آلات کی تیاری کے لیے بھی) شنچنیانگ سے آیا ہے۔

اشیاء کی ترسیل کے حوالے سے چین کی بالادستی

گزشتہ دس سالوں میں چین کا عالمی سولر PV کی فراہمی پر غلبہ رہا ہے اور سولر پینلز کی تیاری کے تمام مراحل (جیسے پولی سلیکان، انگوٹس، ویفرز، سیلس اور ماڈیولز) میں اس کا رول 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ لیکن UFLPA اور دیگر ذرائع سے امریکہ میں چینی کمپنیوں کی بڑھتی ہوئی جانچ پڑتال کو ہندوستان میں پالیسی سازوں اور انڈسری کے لوگوں نےایک موقع گردانا تاکہ وہ اپنے ملک کو چین کےبالمقابل بہتر متبادل کے طور پر پیش کرسکیں۔ راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں  وزارت جدید اور قابل تجدید توانائی نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان سولر ماڈیولز کی پیداوار میں خود کفیل ہوگیا ہے اور سال 2022-23 میں ہندوستان نے 1.03 ارب امریکی ڈالر مالیت کے پینل برآمد کیے ہیں۔ تاہم اسی جواب میں وزارت نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ملک ابھی تک سولر سیلز کی پیداوار میں خاطر خواہ صلاحیت پیدا نہیں کر سکا ہے۔

سی بی پی کی کارروائی سے UFLPA کے نفاذ کی شدت کا پتہ چلتا ہے، جہاں نہ صرف حتمی مصنوعات بلکہ ان کے پرزوں کی بھی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ مختلف مصنوعات کے لیے استمال ہونے والے اہم پرزوں کی درآمد پر چینی کنٹرول کے پیش نظرتوجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ چینی کمپنیاں اپنی مینوفیکچرنگ صلاحیتوں کے ساتھ ہندوستان کی مینوفیکچرنگ امنگوں اور اہداف سے کتنا زیادہ جڑی ہوئی ہیں۔ دہلی میں قائم تھنک ٹینک گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹو کی جانب سےبطور خاص سولر پینلزکے حوالے سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024 میں اسمبل شدہ فوٹو وولٹائک سیلز کی درآمدات 2.9 ارب امریکی ڈالر (ایسی درآمدات کا 65.5 فیصد) تھیں جب کہ غیر اسمبل شدہ سیلز کی درآمدات 1.0 ارب امریکی ڈالر (درآمدات کا 55.9 فیصد) تھیں۔

کووڈ-19 وبائی مرض کی وجہ سے سامانوں کی فراہمی میں تعطل کے پیش نظر ہندوستانی حکومت نے قابل تجدید توانائی کے شعبہ میں خود کفیل ہونے کی کوششوں کومزید تیز کر دیا تھا۔ 2020 میں بڑے شعبے کی الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ کے لیے پروڈکشن لنکڈ انسینٹیو (PLI) اسکیم کے بعد 2021 میں اسی طرح کی ایک اسکیم اعلیٰ کارکردگی والے سولر PV ماڈیولز کے لیے بھی متعارف کرائی گئی جس کا مقصد گیگاواٹ پیمانے پر مینوفیکچرنگ کی صلاحیت پیدا کرنا تھا۔ اس کے لیے 24,000 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا تھا ۔ یہ اسکیم دو قسطوں میں نافذ کی گئی جس میں سے پہلی قسط 4,500 کروڑ روپئےاور دوسری قسط 19,500 کروڑ روپئے پر مشتمل تھی ۔ اس میں 13 کمپنیوں کو ٹینڈر ملا جن میں سے بہت سی مقامی کمپنیاں ہیں۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کمپنیوں نے چینی کمپنیوں کا سپلائرکے طور پر اندراج  کیا ہے جس سے جہاں ایک طرف متبادل ذرائع کی کمی واضح ہوتی ہے تو وہیں دوسری طرف پیداواری نیٹ ورک کے آپس میں جڑے ہونے کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔اس کے علاوہ منسٹری آف ہیوی انڈسٹریز کے تحت نیشنل پروگرام آن ایڈوانسڈ کیمسٹری سیل بیٹری اسٹوریج کے لیے 2024-25 کے مرکزی بجٹ میں 250 کروڑ روپے کی رقم مختص کی گی ہے۔ لیکن اس بجٹ میں وزارت جدید اور قابل تجدید توانائی کے تحت سولر PV ماڈیولز کے لیے کسی نئی PLI اسکیم کے لیے کوئی مخصوص رقم نہیں رکھی گئی ہے۔

چین کے اندرونی معاملات پر زیادہ توجہ دیں

چین پر انحصار کم کرنے کے لیے اپنےملک کی پیداوار کو بڑھانے اور مراعات دینے کی کوششیں طویل مدت میں ایک اچھی حکمت عملی ثابت ہو سکتی ہیں۔ تاہم موجودہ اقتصادی حالات اور منافع بخش متبادل کی کمی کی وجہ سے فی الحال چند سالوں تک ہندوستانی سولر صنعت کمپنیوں کاچین کے ذریعہ فراہم کردہ سامانوں پر انحصار ناگزیر ہے، جیسا کہ بجٹ سے پہلے پیش کیے گئے اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہندوستان بھی ULFPA کے کچھ شعبہ پر استثنائی رعایت کے لیے بات کرے، جیسا کہ ماضی میں 123 نیوکلیئر معاہدے کے معاملے میں ہوا تھا۔

اس واقعہ سے ایک اور بات سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ کہ ہندوستانی کمپنیاں چین کی داخلی سیاست کی باریکیوں اور حالات سے تفصیلی طور پر واقف نہیں ہیں۔ چین میں خام مال اور اجزاء کہاں سے حاصل کیے جاتے ہیں، اس کا سراغ لگانے میں ان کی ناکامی اس بات کی عکاس ہے کہ ہندوستانی کمپنیوں کو چین کے معاملات کو زیادہ گہرائی سے سمجھنے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دراصل ہندوستانی کمپنیاں عام طور پر اس طرح کے صلاح و مشورے کے لیے غیر ملکی اداروں پر منحصر ہیں بجائے اس کے کہ وہ ملک کے اندر اس طرح کے اداروں کو مالی وسائل فراہم کریں ۔ اس سے کئی ایسے مسائل پیدا ہورہے ہیں جس کے اثرات تادیر باقی رہیں گے۔ہوسکتا ہے کہ یہ کسی کو ایک مشکل کام لگے لیکن برآمد پر مبنی مینوفیکچرنگ پر بڑھتی ہوئی توجہ کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی حالات کا تقاضا ہے کہ کمپنیاں چین کے اندر ونی حالات ومسائل سے بہتر آگاہی حاصل کریں اور مناسب فیصلے لیں۔


This is a modified version of the article originally published as Anand P Krishnan, 2024. Why Indian Exporters Need to be Cued into US Curbs on China. Indian Express. 22 October.

Translated by: Abu Zafar

اس مضمون کا ترجمہ ابوظفر نے کیا ہے۔