...

20 August 2025

ہندوستان کو اپنی تبت پالیسی پر از سرنو غور کی ضرورت ہے



 دو جولائی کو 14ویں دلائی لاما کے اعلان، جس میں کہا گیا کہ ان کے روایتی تناسخ کا عمل جاری رہے گا، نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم ہندوستان اور چین کے ردِعمل، دلائی لاما کے اس فیصلے کی وجوہات اور ہندوستان کی آئندہ پالیسی کیا ہونی چاہیے، کا جائزہ لیں۔

اب جب کہ دلائی لاما نے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے تو ہندوستان کے لیے سب سے بہتر ممکنہ صورتِ حال کیا ہو سکتی ہے؟ کیا اگلے دلائی لاما ہندوستان میں پیدا ہوسکتے ہیں؟ یا یہ کہ اگلے دلائی لاما ہندوستان میں پیدا نہیں ہوں گے اورچین کے ساتھ  ہندوستان کے تعلقات پیچیدہ نہیں ہوں گے؟ یا پھر یہ کہ دو دلائی لاما ہوں گے تاکہ ہندوستان کے پاس مستقبل میں ایک اور "تبت کارڈ" استعمال کرنے کا موقع موجود رہے؟ حقیقت یہ کہ ہندوستانی حکومت نے آج تک ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا اور پالیسی کے بجائے قیاس آرائیوں اور اخلاقی ذمہ داریوں کی باتیں ہوتی رہیں۔ شاید اس وقت  یہی ہندوستان کے "تبت کارڈ" کا خلاصہ ہے۔

مرکزی اور ریاستی وزیروں نے یہ دعویٰ ضرور کیا کہ چین کو دلائی لاما کے جانشین کے معاملے میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ دلائی لاما کی سالگرہ کی تقریبات میں ہندوستانی وزرا شریک ہوئے اور وزیر اعظم نے بھی ٹویٹر پر انہیں  مبارکباد دی۔ یہ اقدامات یقیناً چین کے مقابلے میں ہندوستان کے جرأت مندانہ رویے کی مثالیں ہیں مگر یہ وقتی نوعیت کے ہیں ۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ ایک مستقل پالیسی کا حصہ ہوں گے یا آئندہ بھی جاری رہیں گے۔

اس کے برعکس 4 جولائی کو ہندوستان کی وزارتِ خارجہ کے بیان پر غور کیجیے۔ چین سے متعلق معاملات میں اپنے عمومی مختصر اور محتاط انداز کو برقرار رکھتے ہوئے وزارت نے صرف اتنا کہنےپر اکتفا کیاکہ "حکومتِ ہند عقائد اور مذہبی رسومات سے متعلق معاملات پر کوئی مؤقف اختیار نہیں کرتی اور نہ ہی اس پر بات کرتی ہے"۔

وزیر اعظم کے ٹویٹ کے اگلے ہی دن چین نے اپنےردعمل میں ہندوستان پر زور دیا کہ وہ "[تبت]" سے متعلق معاملات کی حساسیت کو پوری طرح سمجھے اور محتاط طرزِ عمل اختیار کرے۔"  دھرم شالہ میں اعلان والے دن ہی چین نے یہ بھی بتایا کہ 2024 کے اختتام تک تبت خودمختار علاقہ (TAR) میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی شاخ میں تبتی ارکان کی تعداد تین لاکھ 75 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ تعداد جلا وطن تبتی آبادی سے ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کا یہ کھیل ایک اور عوامی بیان کی بنیاد بھی بنتا ہے جس میں تاریخی، قانونی اور مذہبی دلائل،چاہے وہ کمزور ہی کیوں نہ ہوں،پیش کر کے چین  یہ واضح کرتا ہے کہ " بدھ مت کے زندہ رہنماؤں کا تناسخ اس اصول کے مطابق ہونا چاہیے کہ عام پیروکاروں کے جذبات کا احترام کیا جائے…ا س کو  چین کے اندر ہونا چاہیے، نہ کہ وہاں جہاں تبتی بدھ مت روایتی طور پر رائج نہیں ہے۔"

ہوسکتا ہے کہ ایسا بیان محض منافقت کہہ کر نظر انداز کرنا آسان ہو لیکن چوں کہ چین کے پاس وسیع اقتصادی اور میڈیا وسائل ہیں، اس کا بیانیہ ہندوستان کے بالکل پڑوس کے علاقوں سمیت  دنیا کے کئی حصوں میں غالب رہے گا ۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کئی سالوں سے دلائی لاما کے خود تجویز کیے گئے کچھ جدید طریقوں کی بجائے روایتی تناسخ کے طریقے پر قائم رہنے کا فیصلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چینی دباؤ نے اثر دکھایا۔ بیرونی طور پر اس دباؤ کے تحت دنیا بھر میں دہائیوں پر محیط ایک جارحانہ مہم چلائی گئی، جس کا مقصد تبتی رہنما کی ساکھ کو کمزور کرنا اور ممالک کو یہ سمجھنے پر مجبور کرنا تھا کہ چین کے اس معاملے پر مخالفت کرنے کے اقتصادی نتائج کیا ہوں گے۔

اندرونی سطح پر اگرچہ کمیونسٹ پارٹی کا  تبّت پر تاریخی دعویٰ مشکوک ہے اور تبتی عوام کے درمیان اس کی قانونی حیثیت کمزور ہے، لیکن اس نے داخلی سکیورٹی میں بھاری سرمایہ کاری اور مذہبی اداروں پر کنٹرول کے ذریعے تبتی معاشرے میں گہرائی سے جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ اس نے سیاسی و انتظامی نظام کو مؤثر انداز میں دوبارہ ترتیب دیا ہے، جس میں زیادہ ہان چینی افراد اور نئی نسل کے "چینی اثر یافتہ تبتی رہنما" امور کی سربراہی کر رہے ہیں۔

دلائی لاما نے اگلے تناسخ کی شناخت کی ذمہ داری گادن پھودرنگ ٹرسٹ کو دی ہے۔ لیکن روایتی طریقہ تبتی جلاوطن برادری کے لیے سازگار نہیں۔ اگلے تناسخ کو تلاش کرنے میں کئی سال لگیں گے۔ پھر اگر اگلے دلائی لاما چین کے باہر پیدا ہوئے تو انہیں اپنا مقام بنانے اور دنیا میں تسلیم کیے جانے میں، اگر انہیں تسلیم کیا گیا، کم از کم دس سال بلکہ کئی دہائیاں لگ جائیں ۔

ہندوستان کو کیا کرنا چاہیے؟

چین کے اس رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے جس میں وہ ہر معاملے کو صرف اپنے فائدے کے تناظر میں دیکھتا ہے، ہندوستان کو تبّت یا اپنی سرحدوں سے متعلق معاملات میں خود کو محدود کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہندوستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ چین کے ساتھ اپنے مفادات کے بارے میں واضح اور صاف بات کرے۔ سب سے اہم قدم یہ ہے کہ ہندوستان کھل کر یہ تسلیم کرے کہ تبّت کے وسیع علاقے، بشمول تبّت خودمختار علاقہ (TAR)، میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا اثر ہندوستان پر بھی پڑتا ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ تبتی بدھ مت کے پیروکار ہندوستان کے سرحدی علاقوں میں موجود ہیں اور کیلاش مان سرور تک رسائی ہندوؤں کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ ہندوستان چین کے اس دعوے کو محض درست تسلیم نہیں کر سکتا کہ تبّت تاریخی طور پر چین کا حصہ رہا ہے۔ لہٰذا تاریخی اور ثقافتی تعلقات بین الاقوامی سیاست میں اپنی اہمیت رکھتے ہیں، اور تبّت کے مسائل کو صرف دلائی لاما یا تبتی جلاوطن برادری کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ ہندوستان کے اپنے مفادات کے تناظر میں بھی دیکھا جانا ضروری ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ تبّت ہندوستان کے لیے اہم ہے کیوں کہ وہاں چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ موجود ہے۔ چین کو تبّت اور شنچیانگ میں اپنے تحفظ کی فکر ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ ہندوستان کا ان علاقوں پر کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ جب تک اسےیہ فکر دامن گیر رہے گی تب تک یہ تنازعہ بھی جاری رہے گا۔لہذانہ تو تبّت کو امن کے خطے کے طور پر دیکھنے کے خیالی تصورات پر عمل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ہمالیہ کے پار تجارت اور روابط بڑھانے کے منصوبے ممکن ہیں۔

دلائی لاما نے روایتی تناسخ کے طریقے کو اختیار کر کے شاید ہندوستان پر ایک طرح کا احسان ہی کیا ہے۔ ان کے اس فیصلے سے کم از کم مستقبل قریب میں دلائی لاما کے ادارے کا ہندوستان اور چین کے تعلقات پر کوئی عملی اثر نہیں پڑے گا۔ اس سے ہندوستان کو چین سے متعلق اپنی پالیسی واضح کرنے کی ترغیب ملنی چاہیے۔


Original: Jabin T. Jacob and Devendra Kumar. 2025. ‘Why India must rethink its Tibet policy’The Indian Express. 6 August.