...

9 November 2025

ہمالیہ میں دفاعی ترقی اور ماحولیات کے درمیان توازن ضروری ہے



ماحولیات پر دور رس اثرات رکھنے والے ایک اقدام کے طور پر نیشنل بورڈ فار وائلڈ لائف کی اسٹینڈنگ کمیٹی (SC-NBWL) نے 26 جون 2025 کو ہونے والے اپنے اجلاس میں زیرِ غور لائی گئی تمام 32 دفاعی اور انفراسٹرکچر کی تجاویز کی منظوری دے دی ہے۔شمالی سرحد کے ساتھ مسلح افواج کو سال بھر آپریشنل رسائی فراہم کرنے پر بڑھتی ہوئی توجہ کے پیشِ نظر، ہندوستان کے ہمالیائی اور ماورائے ہمالیہ (Trans-Himalayan) علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی توسیع میں تیزی آگئی ہے — خاص طور پر لداخ، سکم اور اروناچل پردیش جیسے حساس علاقوں میں۔ اگرچہ یہ منصوبے اسٹریٹجک تیاری کے لیے ناگزیر ہیں مگر یہ ماحولیاتی طور پر حساس علاقوں سے گزرتے ہیں، اس لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ کس طرح تعمیری عمل پہاڑی ماحولیاتی نظام کی مضبوطی کو متاثر کیے بغیر انجام پائے۔

ہندوستانی ہمالیائی خطہ (Indian Himalayan Region) ملک کے 18 فیصد جغرافیائی رقبے پر محیط ہےلیکن یہاں ملک کے کل پھولدار پودوں کا 50 فیصد پایا جاتاہے، جن میں سے 30 فیصد  مخصوص مقامی (endemic)  نوعیت کے ہیں۔ حال ہی میں منظور کیے گئے بہت سارے منصوبے قومی پارکوں، وائلڈ لائف سینکچریوں (WLS) اور تحفظی ذخائر (conservation reserves) کے اندر یا قریب واقع ہیں، جو نہایت اہم ماحولیاتی خدمات، حیاتیاتی راہداریاں(wildlife corridors) اور چرنے کی زمینیں فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سلامتی اور ماحولیاتی سالمیت کے درمیان توازن قائم کرنا اب نہایت فوری اور ضروری مسئلہ بن گیا ہے۔

لداخ پر خصوصی توجہ

لداخ ایک ایسا خطہ ہے جو جغرافیائی طور پر نہایت اہم سرحدی محاذ بھی ہے اور ماحولیاتی لحاظ سے ایک حساس اور قیمتی خطہ بھی۔یہاں منفرد انواع جیسے تبتی آرگالی، تبتی جنگلی گدھا، سیاہ گردن والے کرین (Black-necked crane) اور برفانی چیتے (snow leopard) پائے جاتے ہیں۔ ملک بھر میں ریکارڈ 718 برفانی چیتوں میں سے 477 یہیں پائے جاتے ہیں۔ یہ پناہ گاہیں(sanctuaries) چانگپا چرواہوں کی موسمی ہجرت پر مبنی روزی روٹی (transhumant livelihoods) کو بھی سہارا دیتی ہیں، جو الپائن چراگاہوں، عارضی دلدلی علاقوں اور برفانی پانی کے ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔ تقریباً 30 تجاویز میں سے 26 لداخ سے متعلق تھیں، جن میں سے زیادہ ترقراقرم(نُبرا–شیوک)اور چانگ تھانگ کے سرد صحرائی جنگلی حیات کی پناہ گاہ (Cold Desert Wildlife Sanctuary) میں واقع تھیں (جدول 1 ملاحظہ ہو)۔

لداخ کے محفوظ علاقوں میں منظورہ شدہ اسٹریٹیجک انفراسٹرکچر منصوبے (ایس سی-این بی ڈبلیو ایل، جون 2025)

محفوظ علاقہ
(Protected Area)
اہم انواع
(Key Species)
منظور شدہ بنیادی ڈھانچہ
(Approved Infrastructure)
قراقرم (نُبرا–شیوک) WLS برفانی چیتا، تبتی بھیڑیا، جنگلی یاک، جنگلی کھردار جانور (ایشیاٹک آئبیکس، نیلی بھیڑ) • شیوک میں ایک فارورڈ ایوی ایشن بیس کے لیے 47.6 ہیکٹر

• بوگدانگ میں ایک آرٹلری رجمنٹ اور فیلڈ ہسپتال کے لیے 33.4 ہیکٹر

• گیپشان میں گولہ بارود ذخیرہ کرنے کی سہولت کے لیے 31 ہیکٹر

• شارٹ رینج سرفیس ٹو ایئر میزائل (SRSAM) ہاؤسنگ کے لیے 25.1 ہیکٹر

• پرتاپور میں ہیلی کاپٹروں کی جاسوسی اور تعیناتی کے لیے 8 ہیکٹر

• دولت بیگ اولڈی (DBO) سے بارڈر پرسنل میٹنگ (BPM) ہٹ تک 10.26 کلومیٹر سڑک کا لنک
چانگ تھانگ کولڈ ڈیزرٹ WLS برفانی چیتا، تبتی بھیڑیا، جنگلی یاک، سیاہ گردن والا کرین پرندہ، تبتی جنگلی گدھا، جنگلی کھردار جانور (نیلی بھیڑ، تبتی ہرن، تبتی غزال، تبتی آرگالی) • نیدر میں ایک آرمی رجمنٹ کے لیے 40.468 ہیکٹر

• ہانلے میں گولہ بارود ذخیرہ کرنے کی سہولت (FASF) کے قیام کے لیے 12.1 ہیکٹر

• یورگو (فوبرانگ) میں KV سب اسٹیشن کے لیے 12.98 ہیکٹر

• نیوما میں دریائے سندھ پر سڑک اور عارضی ہیوم پائپ پل
ماخذ: Parivesh 2025, Times of India 2025.

 

ان علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی سے رہائشی علاقے کے بکھرنے (habitat fragmentation)، نقل مکانی کی گزرگاہوں میں رکاوٹ اور فضلہ اور شور میں اضافہ کا خطرہ ہے۔ مثال کے طور پر ہانلے کی مرطوب زمینیں، جو سیاہ گردن والے کرینوں کے لیے اہم افزائش گاہیں ہیں، کو آبی نظام میں خلل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی طرح دیپسانگ کے قریب سڑکوں کی الائنمنٹ جنگلی کھردار جانوروں کے چرنے کے راستوں کو کاٹ سکتی ہے۔ NBWL نے واضح کیا کہ زمین کی قانونی حیثیت بدستور برقراررہے گی اور منظور شدہ مقاصد سے ہٹ کر کسی بھی مستقبل کے استعمال کے لیے نئی منظوری درکار ہوگی۔

حکومت اور ادارہ جاتی چیلنجز

لداخ جیسے سرحدی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو کئی فطری رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے — جیسے بلند مقامات پر لاجسٹک مسائل، سخت موسمی حالات اور ایسا دشوار گزار علاقہ جو انتہائی درست منصوبہ بندی کا متقاضی ہے۔ ماحولیاتی منظوری میں تاخیر کو اکثر تزویراتی اہداف میں رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے فوری منظوریوں کے لیے اسٹینڈنگ کمیٹی پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ طریقہ اور ساتھ ہی اسٹریٹجک منصوبوں کو باضابطہ ماحولیاتی اثرات کے تجزیے (EIA) سے مستثنیٰ کرنے کا رجحان جامع ماحولیاتی جائزے کے عمل کو نظرانداز کر سکتا ہے، جو طویل المدت ماحولیاتی اثرات کے حوالے سے سنجیدہ خدشات کو جنم دیتا ہے۔

متبادل شجر کاری (Compensatory afforestation) جو عام طور پر ماحولیاتی نقصانات کو کم کرنے کی ایک معیاری حکمتِ عملی سمجھی جاتی ہے،سرد صحراؤں میں زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ وہاں پودوں کی دوبارہ افزائش انتہائی سست ہوتی ہے اور مٹی نازک و کمزور ہوتی ہے۔ لداخ کے معاملے میں SC-NBWL کی اجازتیں شرائط کے ساتھ دی گئیں جیسے جانوروں کے گزرنے کے راستے اور جنگلی حیات کے تحفظ کے منصوبوں پر عمل درآمد، تعمیر کے وقت اور آپریشن کے علاقوں پر پابندی، فضلہ کے انتظام کے پروٹوکول کی تیاری اور نفاذ، اور استعمال کنندہ ایجنسیوں کی طرف سے باقاعدہ تعمیل کی رپورٹنگ۔

نگرانی اور نفاذ کو مضبوط بنانے کے لیے، تکنیکی اختراعات جیسے کہ مانیٹرنگ سسٹم فار ٹائیگرز – انٹینسیو پروٹیکشن اور ایکولوجیکل اسٹیٹس، جسے نیشنل ٹائیگر کنزرویشن اتھارٹی اور وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے، بلندی والے ماحولیاتی نظام کی نگرانی کے لیے ممکنہ ماڈل فراہم کرتے ہیں۔ یہ نظام جنگلی حیات کی آبادی، رہائش کے حالات، انسانی دباؤ (anthropogenic pressures) اور گشت کے اقدمات کی نگرانی کے لیے GPS، GPRS اور ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجی کو مربوط کرتا ہے۔ لداخ میں ہندوستانی فوج کا ایکولوجی سیل لیہ میں مقامی کمیونٹیز، غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) اور سول حکام کے ساتھ مرطوب زمینوں کے تحفظ پر کام کرتا ہے تاکہ سیاہ گردن والے کرین کے گھونسلوں کو آوارہ کتوں سے بچایا جاسکے، موسمیاتی گواہی کے کھاتوں کو ریکارڈ کیا جاسکے اور سیاحتی دباؤ کو کم کیا جاسکے۔ فوج کے لیے باقاعدہ ماحولیاتی تربیت ہندوستان کے سرحدی علاقوں میں حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے حساس کارروائیوں پر بڑھتے ہوئے ادارہ جاتی زور کی عکاس ہے۔

انفراسٹرکچر کے لیے ذمّہ دارانہ طرزِ عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ بروقت ماحولیاتی جائزوں، مجموعی اثرات پر مبنی مضبوط تجزیوں اور تحفظ سے ہم آہنگ ترقی کے لیے ایک علاقائی نقشۂ کار (blueprint) کے ذریعےبہتر منصوبہ بندی کی جائے۔ منظرنامہ جاتی منصوبہ بندی (Landscape-level Planning)جو طویل مدتی نگرانی اور سخت ادارہ جاتی جائزے سے تقویت پاتی ہے، زیادہ جامع اور متوازن فیصلوں میں رہنمائی کر سکتی ہے۔جہاں راستہ بدلنا ممکن نہ ہو وہاں تلافی کے اقدامات (mitigation) کا محور مسکن کی بحالی، موسمی پابندیوں اور جنگلی حیات کی گزرگاہوں (Wildlife Corridors) کے قیام پر ہونا چاہیے۔مقامی ماحولیاتی علم جیسے چانگپا چرواہوں سے حاصل شدہ تجربہ اور تحفظِ فطرت کے ماہرین کی تحقیق کو منصوبہ سازی میں شامل کرنااور اداروں کے درمیان بہتر ہم آہنگی پیدا کرنا مستقبل کے منصوبوں کو ماحولیاتی بصیرت (ecological foresight) کے ذریعے زیادہ پائیدار بنا سکتا ہے۔

ایس سی-این بی ڈبلیو ایل کی منظوریوں سے یہ بات اجاگر ہوتی ہے کہ دفاعی ڈھانچے کی توسیع کتنی تیزی سے نازک پہاڑی ماحولیاتی نظاموں میں داخل ہو رہی ہے ۔ اور یہ صرف لداخ میں ہی نہیں ہورہا ہےبلکہ سکم کے پانگولاخا اور اروناچل پردیش کے نمدا پھا وائلڈ لائف سینکچریز میں بھی جاری ہے۔ ماحولات کاتحفظِ اور رابطے کو ایک دوسرے کا متضاد ہدف نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسٹریٹجک منصوبہ بندی کو ماحولیاتی بصیرت کے ساتھ مؤثر نگرانی، شفافیت اور اداروں کے باہمی تعاون کی بنیاد پر آگے بڑھایا جانا چاہیے تاکہ ہندوستان کی سرحدیں بیک


Original: Padma Ladon. 2025. ‘Reconciling Strategic Infrastructure with Ecological Fragility in the Himalayas’. Centre of Excellence for Himalayan Studies, Shiv Nadar Institution of Eminence. Commentary. 25 September.


Translated by: Abu Zafar