...

12 November 2025

ہندوستان کی چین پالیسی پر پاکستان کا اثر



 ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ "نارملائزیشن" نہ تو کسی مشکل سودے بازی کا نتیجہ ہے اور نہ ہی اس میں ہندوستان کے لیے کوئی نمایاں فائدہ پوشیدہ ہے۔ بلکہ اس کے برعکس یہ عمل ایسے وقت  میں سامنے آ رہا ہے جب ہندوستان، جیسا کہ ایک تجزیہ کار نے کہا، " جغرافیائی و سیاسی  لحاظ سے تقریباً مثالی مقام پر ہونے کے بعد ایک ایسی بند گلی میں جا پہنچا ہے جہاں کوئی بہتر آپشن باقی نہیں رہا۔"

ہندوستان کے اس مشکل صورتِ حال میں پھنسنے کی کئی وجوہات ہیں، تاہم بنیادی وجہ پاکستان کو ہی قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستان، 'ترجیحی' حریف

یہاں ’پاکستان‘ سے مراد صرف ایک ملک نہیں بلکہ وہ غیر متناسب اہمیت بھی ہے جو ہندوستانی حکومت کی سوچ اور ترجیحات میں اسے حاصل ہے۔اس معاملے کے دو اہم پہلو ہیں۔

پہلا پہلو یہ ہے کہ 'پاکستان'دراصل ہندوستانی سیاسی قیادت اور حکومتی نظام کی اس ناکامی کی علامت ہے کہ وہ چین کے ذریعہ پیش کیے گئے بڑے جغرافیائی و سیاسی چیلنج کو قبول کرنے سے گریزاں ہیں۔ گلوان  واقعے کے بعد اگرچہ بنیادی ڈھانچے پر اخراجات میں اضافہ ہوالیکن فوجی اصلاحات اور جدیدیت کے لیے وسائل اور توجہ کی کمی اس بات کی علامت ہے کہ چین کے خلاف فوجی حکمتِ عملی پر غور وفکر ابھی ناکافی ہے۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں ترجیح یہ ہے کہ "اس شیطان سے نمٹا جائے جو جانا پہچانا ہے، نہ کہ اُس سے جو اجنبی ہے۔"لہذا چین کے مسلسل تجاوزات کا فطری ردعمل اکثر دفاعی ہوتا ہے، اقدامی نہیں۔ یہ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان کے اشتعال انگیز اقدامات پر بنا سوچے سمجھے رد عمل ہمیشہ اقدامی ہوتا ہے۔تاہم دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے – ہندوستان  اپنے مقاصد کو مکمل طور پر حاصل کرنے سے پہلے ہی سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ مقاصد کے حصول میں ناکامی صرف فوج کی کوتاہی نہیں بلکہ یہ ہندوستان میں سیاسی حالات کا نتیجہ بھی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ چین عام ہندوستانی عوام کے جذبات کو اتنا بر انگیختہ نہیں کرتا جتنا پاکستان کرتا ہے۔ یوں پاکستان کے حوالے سے پالیسی دراصل ٹھنڈے غور و فکر کے بجائے جذباتیت اور عوامی غیظ و غضب کو مطمئن کرنے کی خواہش کے زیرِ اثر تشکیل پاتی ہے ۔ منطقی طور پر کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ چوں کہ چین کے معاملے میں کوئی ایسی جذباتی تپش نہیں پائی جاتی، اس لیے گمان ہوتا ہے کہ ہندوستان کی پالیسی وہاں عقل و خرد اور معقول غور و فکر کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہوگی۔ تاہم ہندوستان کی عوام کی عدم توجہی نے ایک ایسی صورتِ حال پیدا کر دی ہے جس میں چین کو سمجھنے میں خاطر خواہ سرمایہ کاری نہیں کی جاتی — اس یقین کے تحت کہ اس کے نتائج کو یا تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے یا عوام سے پوشیدہ رکھا جا سکتا ہے اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوگی۔

موجودہ غیر مستقل مزاج امریکی صدر سے زیادہ اس زمینی حقیقت  نے چین کے معاملے میں ہندوستان کو اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور کیا ہے — یعنی گلوان کے بعد چین پر عائد کی گئی اقتصادی پابندیوں سے پیچھے ہٹنا اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) پر سابقہ حیثیت (status quo ante) کی بحالی کے معاملے کو فراموش کر دینا۔ مشرقی لداخ کا ذکر اب اخبارات کے صفحۂ اول سے غائب ہو چکا ہے اور ہمیں یہ بات صحیح طور پر معلوم نہیں کہ فوجوں کاانخلاء (disengagement) واقعی مکمل ہو چکا ہے یا نہیں — یا پھر چینی فوج نے اپنے وعدے کے مطابق ہندوستانی فوج کو تمام گشت کے مقامات (patrolling points) تک رسائی کی اجازت دی ہے جن سے انہیں پہلے روک دیا گیا تھا۔

اس پر مستزاد یہ کہ  پاکستان پر اتنا زور دینے کے باوجودہندوستان کےوزیر اعظم اس سال مئی میں چین کی جانب سے آپریشن سندور کے دوران پاکستان کے ساتھ کھلے عام فوجی تعاون کے محض چند ماہ بعد چین کا دورہ کر رہے ہیں۔ چین نے ہند-پاک تنازعے کے چند ہفتوں بعد افغانستان اور پاکستان کے ساتھ اور پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ ہندوستان  کو گھیرتے ہوئے سہ فریقی شراکت داری کو بھی فروغ دیا ہے۔ دراصل وانگ ای  کی نئی دہلی سے اگلی منزل کابل ہے جہاں وہ سہ فریقی اجلاس میں پاکستانی اور افغان طالبان کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات کریں گے اس کے بعد وہ اسلام آباد کا دورہ کریں گے، جو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ ان کا ہندوستان کا دورہ چین کی طویل المدتی حکمت عملی میں کس مقام پر ہے۔

دریں اثنا چند سال کے وقفے کے بعد آپریشن سندور کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر چین اور امریکہ کے درمیان اپنے روایتی متوازن کردار (balancing act) کی طرف واپسی کر لی ہے۔پاکستانی تجزیہ کار اب اس صورت حال کو "چین اور پاکستان دونوں کے لیے نہایت فائدہ مند" قرار دے رہے ہیں اور ان کے مطابق اسلام آباد اب "تزویراتی توازن (strategic balancing) اور غیر وابستگی (non-alignment)" کی پالیسی پر مؤثر انداز میں عمل کر سکتا ہے۔

کچھ توقعات

وانگ ای کے دورہ  سےسرحدی تنازعہ پربذات خود کوئی خاص کامیابی حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ گرچہ ہندوستان کے این ایس اے اور وزیر اعظم دونوں بلاشبہ اپنے چینی ہم منصبوں کے ساتھ LAC اور پاکستان دونوں پر اپنے خدشات کا اظہار کریں گے، لیکن زیادہ تر توجہ اقتصادی ریلیف حاصل کرنے پر ہوگی – یعنی ہندوستان  کی آئی فون فیکٹریوں یا اس کی الیکٹرک وہیکل انڈسٹری کے لیے چینی افرادی قوت اور سپلائیز تک رسائی۔ تاہم چین سے ان مسائل پر بھی زیادہ نرم رویہ اپنانےکی توقع نہیں کی جا سکتی۔

یہ منطق نہایت سادہ ہے۔ اگر چین نئی دہلی کی درخواستوں کو مسترد کر دیتا ہے تو ہندوستانی حکومت نہ تو عوامی تنقید سے زیادہ متاثر ہوگی اور نہ ہی اسے کسی بڑے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گاکیوں کہ وہ عوام کی توجہ کسی اور سمت موڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے،یوں بیجنگ کے لیے بھی اس کے کوئی خاص نتائج نہیں نکلیں گے۔یہاں تک کہ اگر چین ہندوستان  کی درخواستوں کو تسلیم بھی کر لیتا ہے، تو ہندوستانی حکومت پر اس کا سیاسی اثر پاکستان سے متعلق فیصلوں جیسا نتیجہ خیز ہونے کا امکان نہیں ہے، جس سے بیجنگ کو خیر سگالی کے لحاظ سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ چین وعدے کر سکتا ہے لیکن انہیں پورا نہیں کرے گا۔

ہندوستان کی پاکستان اور چین سے متعلق پالیسیاں — اور اب لگتا ہے کہ امریکہ سے متعلق پالیسی بھی تکنیکی اور


Original: Jabin T. Jacob. ‘India’s China policy at a crossroads’. The Tribune, 19 August 2025.

Translated by Abu Zafar