16 December 2025
ہمالیہ میں شہری ترقی، شدید بارشیں اور آفات کا خطرہ
ہمالیہ;کاخطہ نوآبادیاتی دور کے طویل اثرات، اقتدار کے مراکز سے مسلسل نظرانداز کیے جانے، سرمایہ پر ستانہ ماحولیاتی تباہی، بے ہنگم شہری توسیع اور غیر یقینی موسمیاتی تبدیلی کے نتائج کو بار بار آنے والی آفات کی صورت میں بھگت رہا ہے۔ یہ واقعات اس سست مگر مسلسل تشدد کے عکاس ہیں جس کا سامنا پورے خطے کی مقامی آبادی کو طویل عرصے سے کررہی ہے۔ایسا ہی ایک واقعہ 4 اکتوبر 2025 کو پیش آیا، جب شدید بارشوں نے دارجلنگ، کلیمپونگ اور سکم کے ہمالیائی علاقوں کے ساتھ ساتھ نیپال اور بھوٹان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس دوران علاقہ میں آسمانی بجلی، گرج چمک اور بارش کے حوالے سے ریڈ اور اورنج الرٹ جاری کیے گئے۔ لوگوں کے موبائل فون پر آنے والی وارننگ کے فوراً بعدسے رات بھر موسلا دھار بارش، زور دار گرج چمک کا سلسلہ جاری رہا۔
یہ پہاڑی علاقوں کے ایک بڑے تہوار دسائی کا تیسرا دن تھا جو زیادہ تر اکتوبر میں منایا جاتا ہے۔ جو دسائی پہلے صاف آسمان اور دھوپ والے موسم کی علامت تھا، پچھلی ایک دہائی میں یہ بارشوں والا تہوار بن چکا ہے۔ بہت سے بزرگ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کبھی ایسی بجلی اور گرج نہیں دیکھی۔ متوقع 2 سینٹی میٹر بارش کچھ جگہوں پر 3 سینٹی میٹر تک بڑھ گئی۔ یہ مقدار ہمالیائی خطے میں بڑے لینڈ سلائیڈکے لیے 25 ملی میٹر فی دن کی خطرناک حد سے تقریباً 10 گنا زیادہ تھی۔ رات بھر کی بارشوں، بجلی اور طوفان نے لوگوں کو سونے نہیں دیا، خاص طور پر اُن افراد کو جو دریاؤں اور ندی نالوں کے قریب رہتے تھے۔
راتوں رات دارجلنگ ضلع کے ایک بلاک بیجن باڑی میں واقع چھوٹا رنگیت ندی میں طغیانی آ گئی اور اس کا پانی گہرا بھورا ہو گیا۔ ندی کا پانی گھروں اور رہائش گاہوں ، جن میں موجود سوئمنگ پول بھی شامل تھے ، میں داخل ہوگیا۔ کچھ عمارتیں بہہ گئیں اور سوئمنگ پول مٹی اور کیچڑ سے بھر گئے۔کچھ آگے جا کر اس سڑک کا ایک حصہ بھی بہہ گیا جو پل بازار جانے والے پل سے ملتا تھا۔ مگر خطرہ صرف مرکزی ندی تک محدود نہیں تھا۔ نالے اور چھوٹی ندیاں بھی ابل پڑیں، جس کے نتیجے میں تودے کھسکے اور گھروں اور زیرِ تعمیر عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ لوگوں کے نئے بنے ہوئے مکانات اور ان کی زمینیں بھی سیلاب کی نذر ہو گئیں۔
بیجن باڑی میں پولیس اور فائر بریگیڈ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے دریا کے کنارے آباد لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔دریاؤں کے کناروں اور پہاڑی جنگلاتی علاقوں میں آہستہ آہستہ عمارتیں اور رہائشی مکانات قائم ہوتے جا رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ان علاقوں میں آباد ہونے والے لوگوں کو ایسے غیر پائیدار مقامات پر رہنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے جو زیادہ بلند اور کھڑی ڈھلوانیں ہیں یا ندی نالوں اور دریاؤں کے قریب کے علاقے۔اس کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کے مالکان یعنی ایسے خاندان جن کے پاس وسیع پہاڑی زمینیں ہیں،ان پہاڑیوں کو چھوٹے چھوٹے پلاٹ میں تقسیم کر کے نئے آنے والوں کو فروخت کر رہے ہیں۔ یہ نئی آبادیاں عموماً مقامی جغرافیہ اور اس کے خطرات سے واقف نہیں ہوتیں۔ ادھر پہاڑی علاقوں کے ٹھیکیدارسابقہ تجربہ اور تکنیکی مہارت کے باوجود ، اس بات کے لیے بدنام رہے ہیں کہ وہ جہاں کہیں بھی کوئی "خالی" جگہ نظر آئے، تعمیرات شروع کر دیتے ہیں،چاہے وہ عوامی بیت الخلا کے اوپر ہو، آبی ذخائر پر ہو یا سڑک کے خطرناک موڑوں پر۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بغیر کسی کاغذی کارروائی کے فوری منافع کی سرمایہ کاری کے خطرات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں اور اس طرح فطرت کے قہر کو دعوت دے رہے ہیں۔
بارش کی وجہ سے آفات اس خطے میں مانسون کے بعد بھی عام ہوتی جا رہی ہیں۔ حالیہ واقعہ3 اکتوبر 2023 کو دریائے تیستا پر چنگ تھانگ سانحے کی دوسری برسی کے موقع پر پیش آیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بارشوں کا سلسلہ مانسون کے مہینوں یعنی جون، جولائی، اگست اور ستمبرسے آگے تک بڑھ چکا ہے، جو بارش کے انداز میں تبدیلی اور روزانہ یا فی گھنٹہ ہونے والی بارش کی مقدار میں اضافے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تیستا جیسی بڑی ندی میں ہر سال، بلکہ ایک سال میں کئی بار، طغیانی آتی ہے۔ جب کہ چھوٹا اور بڑا رنگیت جیسے تیستا کے ندی نالے اور معاون ندیاں اپنے راستوں میں شدید تباہی مچا رہی ہیں۔
عملی اقدام کی اپیل
بے خبری اور پہاڑوں کی بے دریغ کٹائی کے باعث مکانات غیر محفوظ ہو گئے ہیں اور حالیہ دسائی کی تقریبات کے دوران پہاڑی تودہ سرکنے کے واقعات( لینڈ سلائیڈنگ) گویا بن بلائے مہمان بن کر آ ئے۔جس سے خاندان بکھر گئے اور بعض مقامات پر پورے پورے خاندان صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ موسمیاتی تبدیلی کی غیر یقینی صورتِ حال دن بہ دن زیادہ واضح ہوتی جارہی ہے، اور اس کا سب سے زیادہ خمیازہ حالیہ آبادہونے والوں یا روزگار کے لیے رہائش پذیر لوگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ صورتِ حال آبی ذخائر کے قریب تیز رفتار اور غیر منصوبہ بند ترقی کی نشان دہی کرتی ہے۔ایک طرف ان آفت زدہ علاقوں میں نقل مکانی کر کے آنے والی برادریاں تاریخی تجربات اور معلومات کے بغیر اچانک خطرات میں گھر جاتی ہیں اور انہیں مسلسل معاونت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری طرف یہ صورت حال منافع کی خاطر ترقی کے بے حس اور غیر ذمہ دارانہ دباؤ کو بھی اجاگر کرتی ہے۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ہندوستانی ہمالیہ بشمول نیپال اور بھوٹان شدید بارشوں کے اس سیلابی سلسلے سے دوچار ہوا اور اس کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان ہوا ہے۔ لہذا اس امر کی ضرورت ہے کہ شدید بارشوں کے واقعات اور شہری توسیع کے باہمی تعلق کو صرف مقامی سطح پر نہیں بلکہ علاقائی اور سرحد پار تناظر میں سمجھا جائے اور دریاؤں کے پورے نظام میں ان کے اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ یعنی ابتدائی درجے کے ندی نالوں سے لے کر سمندروں میں ان کے انجام تک۔
Original: Rinan Shah. 2025. ‘Urbanisation, Extreme Rainfall, and Disaster Risk in the Himalaya’. Commentary. Centre of Excellence for Himalayan Studies. 4 November.
Translated by Abu Zafar
Share this on: