No. 1
July 2023
چین کا اویغوروں پر ظلم اور مغربی ایشیائی ممالک کی سرد مہری
عرب لیگ کے 34 ارکان پر مشتمل وفد نے 30 مئی سے 2 جون تک شنچیانگ کے دارالحکومت ارومچی کے ساتھ ساتھ تاریخی شہر کاشغر کا چار روزہ دورہ کیا۔ اگرچہ عرب لیگ یااس کے وفد کی طرف سےاس بابت سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا لیکن چین کی وزارت خارجہ کا دعویٰ ہے کہ وفد نے مساجد، اسلامی اداروں اور مقامی کاروباری اداروں کا دورہ کیا۔ خبر ہے کہ وفد نے "انسداد دہشت گردی اور بنیاد پرستی سے متعلق ایک نمائش" میں بھی شرکت کی اور محصوراویغورافراد کی "خوشگوار زندگی کا راست طور پر" مشاہدہ کیا (Ministry of Foreign Affairs, China 2023)۔ چین کی وزارت خارجہ کا یہ بھی دعویٰ ہےکہ وفد جس میں عرب لیگ کے ممالک اور اس کے سیکرٹریٹ کے اہلکار شامل تھے، نے حکومت کے کردار کی تعریف کی اور "نسلی نسل کشی" اور "مذہبی ظلم و ستم" کے الزامات کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا (Global Times 2023)۔
اویغور آبادی کے حقوق کی وکالت کرنے والے انسانی حقوق کے گروپوں نے عرب لیگ کے اقدامات پر یہ دلیل دیتے ہوئے تنقید کی ہے کہ اس طرح کے دورے شنچیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہے نارواسلوک کے حوالے سے صرف بیجنگ کے غیر مصدقہ بیانیے کی حمایت کرتے ہیں (Campaign for Uyghurs 2023)۔ یہ اپنی نوعیت کا دوسرا دورہ تھا ۔ اس سے قبل اس سال جنوری کے شروع میں متحدہ عرب امارات کی ورلڈ مسلم کمیونٹیز کونسل کے علماء کی قیادت میں ایک دوسرے وفد نے اپنے دورہ شنچیانگ کے بعد چین کی پالیسیوں کی تعریف کی تھی (Wani 2023) ۔ ان دوروں سے پہلےمذکورہ ممالک نے نہ صرف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں چین کی حمایت کی تھی بلکہ ان کے رہنماؤں نے چین کے اپنے سرکاری دوروں پر بھی اس کا دفاع کیا تھا۔( Ensor 2019)
چین کو اس وقت شنچیانگ میں رہنے والی اس کی اویغور آبادی اور دیگر مسلم اکثریتی نسلی گروہوں کے خلاف نسل کشی سمیت انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے سنگین الزامات کا سامنا ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں (Human Rights Watch 2021; OHCHR 2022) کا ماننا ہے کہ چین نے دس لاکھ سے زائد اویغوروں کو زبردستی حراست میں رکھا ہے جسے چینی حکومت "ری ایجوکیشن کیمپ" کے نام سے تعبیر کرتی ہے۔ یہ قیدی وحشیانہ جسمانی اور نفسیاتی تشدد کے ساتھ ساتھ جبری مشقت بھی برداشت کرتے ہیں۔ خواتین قیدیوں کے ساتھ چین کا سلوک خاص طور پر پریشان کن ہے، جنہیں جبری نس بندی، جنسی استحصال، اور یہاں تک کہ عصمت دری کا نشانہ بنایا جاتا ہے (Al Jazeera 2021)۔
مسلم تہذیب و ثقافت کی متعدد نشانیوں کو منظم طریقے سے ختم کیا جارہا ہے ۔ 2014 کے بعد سے اویغور افرادکے کسی بھی طرح کے "شدت پسند" رویے کی نگرانی کے لیے ان کے گھروں کی مسلسل تلاشی لی جاری ہے۔ یہاں تک کہ ان پر رمضان کے روزے رکھنے پر بھی پابندی ہے۔ (Byler 2018) ۔ ارومچی میں حلال کھانے کی دستیابی، جس کی پابندی اسلامی غذائی قوانین کے لحاظ سےمسلمانوں کے لئے ضروری ہے، کے خلاف حکومت کی زیرقیادت مہم کی وجہ سے کافی حد تک کم ہو گئی ہے (Kuo 2018) ۔مزید برآں حکام نے اکثر غیر معیاری تعمیرات اور حفاظتی خدشات کے بہانے ہزاروں مساجد کو مسمار کردیا ہے (Ruser et. al. 2020)۔ چینی کمیونسٹ پارٹی (سی پی سی) نے یہ انتباہ جاری کرتے ہوئے کہ اگر مذہبی انتہا پسندی کو مکمل طور پر ختم نہ کیا گیا تو پرتشدد دہشت گردی کو فروغ ملے گا، مسلمانوں کو "نظریاتی بیماری سے متاثر" کے طور پر پیش کیا ہے۔(Samuel 2018)۔
اویغور ڈیموگرافی
اویغور ایک ترک نژاد نسلی گروہ ہے جو کہ شنچیانگ کی کل آبادی کا 44.96 فیصد ہے، جب کہ ہان چینی 42.24 فیصد ہیں (Consulate General of the People’s Republic of China in Toronto 2021)۔ چینی حکومت اور کمیونسٹ پارٹی مختلف ذرائع سے شنچیانگ کی آبادیاتی ساخت (demography)میں ردوبدل کرتی رہی ہے۔اور اس مقصد کے لیے گذشتہ چند دہائیوں میں دوسرے صوبوں سے کافی تعداد میں ہان چینیوں کو شنچیانگ منتقل کیا گیا ہے (Li 2019) – اس پالیسی کو شنچیانگ میں "ہانائزیشن" یا "ہانی فیکیشن" کہا جاتا ہے۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق شنچیانگ میں ہان نسل کے لوگوں کی شرح نمو اویغور سے زیادہ ہے۔(Lew 2021) ۔ جبری نس بندی اور دیگر طریقوں نے صوبے میں شرح پیدائش کو متاثر کیا ہے جس کے نتیجے میں2017 سے صوبہ میں شرح پیدائش قومی اوسط سے کم ہے (Maizland 2022) ۔
چین نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے نام پر اپنے اقدامات کو مسلسل جائز ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔ تاہم اقوام متحدہ کی 2022 کی ایک رپورٹ میں چین پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیاہے(United Nations News 2022)۔ مغربی ممالک مثلا امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نےجہاں شنچیانگ میں چینی پالیسیوں کی مذمت کی ہے وہیں سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر اور بحرین سمیت متعدد مسلم اکثریتی ممالک نے شنچیانگ کی صورتحال پر چین کی حمایت کی ہے۔ (Putz 2020)۔
2019 میں ان میں سے زیادہ تر ان 45 ممالک میں شامل تھے جنہوں نے اقوام متحدہ میں اس بیان کی حمایت کی تھی جس میں کہا گیا تھاکہ "چین نے شنچیانگ میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرات سے بچنے کے لئے اور تمام نسلی گروہوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے قانون کے مطابق متعدد اقدامات کیے ہیں۔ " بیان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ یہاں "تمام نسلی گروہوں کے لوگ پرامن اور مستحکم ماحول میں اپنی خوشگوار زندگی سے لطف اندوز ہورہے ہیں" (cited in Putz 2020)۔ بعد ازاں 2020 میں قطر یہ کہتے ہوئے اس بیان سے دستبردار ہو گیا تھاکہ وہ "غیر جانبدارانہ موقف پر باقی رہنا چاہتا ہے" (Younes 2019)۔ ایران، جو خطے کی ایک اہم آواز ہے، سول سوسائٹی اور سیاست دانوں کے مطالبے کے باوجود، اس مسئلے پر یا تو خاموش ہے یا چینی حکومت کے موقف کی حمایت کرتا ہے (World Bulletin, n.d.; Esfandiari 2020) ۔
ترکی جو پہلے اویغوروں کے حقوق کا ایک مضبوط حامی تھا، نے بھی حالیہ برسوں میں مختلف اقتصادی اور سیاسی عوامل کی وجہ سے اپنا موقف تبدیل کر دیا ہے۔ (Alta 2021) مغربی ایشیا میں ڈکٹیٹروں اور سرکاری علماء کے درمیان اتحاد مسلمانوں کو ہان ثقافت میں شامل کرنے کے چین کے مقصد کو آسان بنا رہا ہے، اور اس طرح، چین میں اسلام کو چین کے قالب میں ڈھالنے( Sinicizing) کے بیجنگ کے مقصد کی تکمیل ممکن ہورہی ہے۔ (Hoffman 2023)۔
حکومتوں کے مشترک مفادات
چین کےاس رویے پر ان مسلم ممالک کی حمایت بہت سارے لوگوں کے لیے حیران کن ہے اور اویغوروں کی وکالت کرنے اور بیجنگ پر اس کے ان اقدامات کے لئے دباؤ ڈالنے میں ان کی ہچکچاہٹ کی وجوہات کے حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ ان میں سے بہت سے ممالک چین کو اقتصادیات اور خاص طور پر خطے میں کم ہوتے امریکی اثر و رسوخ کے پیش نظر ایک اتحادی اور قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر مانتےہیں، لیکن یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین بھی اپنی معاشی بہبود خاص طور پر توانائی کی ضروریات کے لیے ان ممالک پر انحصار کرتا ہے ۔ مزید برآں، مغربی ایشیائی ممالک کے ساتھ چین کی گہری ہوتی ہوئی مصروفیت - جس کی مثال اس سال کے شروع میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی میں ثالثی کے طور پر پیش کی گئی ہے - اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی مفادات سے آگے کی چیز ہے اور ان وسیع تر تعلقات میں ہمیں ایسے اشارے ملتے ہیں کہ ہم درج بالا مسئلے کو سمجھ سکیں۔
اولاَ چین اور ان ممالک کے سیاسی کلچر میں ایک خاص مماثلت پائی جاتی ہے۔ اگرچہ مغربی ایشیائی ممالک اورچینی حکومت کے نظریات الگ ہیں ہیں لیکن ان کےانداز حکمرانی میں بہت سی قدریں مشترک ہیں۔مثلا ان میں سے زیادہ تر ممالک میں چین کی طرح میں آمرانہ طرز حکومت رائج ہے۔ چین میں خودمختاری چینی کمیونسٹ پارٹی سے منسوب ہے جب کہ مغربی ایشیا میں یہ بنیادی طور پر حکمران خاندان کے پاس ہے۔ دوسرے الفاظ میں چین میں کمیونسٹ پارٹی ایک ’بڑے خاندان‘ کے طور پرسب کچھ ہے اور مغربی ایشیا میں خاندان کا سائز چھوٹا ہے۔ اپنی حکمرانی کا جواز پیش کرنے کے لیے کمیونسٹ پارٹی ’چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم‘ کا نعرہ دیتی ہے تو مؤخر الذکر اسلامی عقیدے کی من مانی تشریحات استعمال کرتے ہیں۔ سرکاری نظریہ یا مذہبی لائن سے اختلاف کو دونوں نظام میں جرم سمجھا جاتا ہے اورریاست اپنی پوری طاقت سے متبادل تشریحات کو دباتی ہے۔
عرب دنیا کی بادشاہتیں ہمیشہ اسلامی تعلیمات پر مبنی انقلابات سے خائف رہی ہیں اور انہوں نے اخوان المسلمون جیسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں جو اسلامی انقلاب کی وکالت کرتے ہوئے بادشاہت کو چیلنج کرتی رہی ہیں۔ یہ تنظیمیں حکمرانوں کی بدعنوانی، عدم مساوات اور انسانی حقوق سے انکار کے لیے بھی ناقد رہی ہیں، جس سے خطے میں مذہبی اور سیاسی اثر و رسوخ کے لیے طاقت کی کشمکش کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حکمران 2011 میں بہار عرب کے دوران خاصے خوف زدہ تھے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر نے اپنے اقتدار کی حفاظت کے لیے ایسے ملکی اسلامی ادارے قائم کیے ہیں جو ایسے مذہبی جواز فراہم کرتے ہیں جو ریاست کے اقتدار اعلیٰ کا جواز فراہم کرسکیں۔ اس حکمت عملی کا مقصد مذہب کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے بہار عرب، متبادل اسلامی سیاست کی کسی بھی دوسری شکل اور وسیع تر سیاسی اختلاف کو غیر قانونی قرار دینا ہے۔ مذہبی مباحث کو کنٹرول کرنے کے لئےیہ ممالک اسلام کے ریاستی کنٹرول والے ورژن کو فروغ دیتے ہیں تاکہ ان کی حکمرانی کو درپیش چیلنجوں کو ختم کیا جا سکے(Hoffman 2023)۔ لہذا چین اور خلیج فارس کے یہ ممالک دونوں ایسی انقلابی سیاست سے خوفزدہ ہیں جو ان کی حکمرانی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ شنچیانگ میں کمیونسٹ پارٹی اور حکومت کے خلاف تھوڑی بھی مزاحمت چینی حکام کو ایک جواز فراہم کرتی ہےکہ خلیج فارس کے ممالک کو ایک مشترکہ نظریاتی مخالفت کے خلاف آسانی سے قائل کرسکیں۔ نتیجتاً، مغربی ایشیا کے حکمران مذہب پر تسلط قائم کرنے اور اسے ریاستی اقتدار کے تابع کرنے کی مشترکہ کوششوں میں چین کے ہم پلہ بن گئے ہیں – اس لیے دونوں حکومتیں ایک ہی طرح کے طرز عمل کا مظاہر ہ کررہی ہیں۔
دوسرے چین اور مغربی ایشیا کے ممالک دونوں ہی اختلاف رائے کی تمام اقسام کو دہشت گردی قرار دیتے ہیں اور اس طرح اپنی قومی سلامتی اور خودمختاری کے لیے انسداد دہشت گردی کے اقدامات کا جواز پیدا کرتے ہیں۔داعش کے قیام کے بعد ترکستان اسلامک پارٹی (TIP) یا ترکستان اسلامک موومنٹ (TIM) جیسے گروہوں کے وجود نےاس بیانیے کو مزید تقویت دی ہے۔ چین نے مختلف بین الاقوامی فورم پر مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کرنے کے لیے ہر موقع کا استعمال کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ شنچیانگ کے عسکریت پسند شام میں باغی گروپوں میں شامل ہو رہے ہیں (Zafar 2023: 116-117)۔ ایسا کرتے ہوئے، بیجنگ نے شنچیانگ میں عام آبادی کے خلاف اپنے جابرانہ اقدامات کو بھی جائز ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔
چین کی خودمختار ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی بھی مغربی ایشیا کے آمر حکمرانوں کو خوب راس آتی ہے۔ اس پالیسی نے چین کو خطے کی پیچیدہ صورت حال خاص طور پر تنازعات اور سیاسی ہلچل کے دوران ،کو صحیح طور پر ڈیل کرنے کے لائق بنایاہے ۔ نتیجے کے طور پر چین نے ان ممالک کے درمیان تنازعات، بشمول تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور یہاں تک کہ جنگوں میں ان پر تنقید سے گریز کرکے ایک مثبت امیج بنائی ہے۔ مزید یہ کہ امریکہ کی قیادت میں مغرب کے مداخلت پسندانہ اقدامات پر چین کی تنقیدوںسے باہمی مفادات میں یکسانی واضح ہوتی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ دونوں فریق شیشے کے گھر میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے پر پتھر پھینکنے سے بچتے ہیں۔
لہذا چین مغربی ایشیائی ممالک کو یہ باور کرانے میں کامیابی رہا کہ شنچیانگ کے مسائل خالصتاً اندرونی نوعیت کےہیں اور اس میں بیرونی مداخلت کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ مزید برآں ان مقاصد کو تقویت دینے کے لیے چین کی کمیونسٹ پارٹی اور حکومت نے پوری تندہی سے ان ممالک کے پالیسی سازوں، مذہبی رہنماؤں اور صحافیوں کو اویغور کے مسئلے پرقائل کرنے اورانہیں اپنا حامی بنانے کی مہم شروع کی ہے (Andersen and Lons 2020: 102) ۔ سال 2011 میں بہار عرب کے بعد سے ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں چین نےان ممالک کےایسے بیانیے کا ساتھ دیا جو مغربی طاقتوں کے بیانیے سے مختلف تھے۔ ایک قابل ذکر مثال سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل ہے، جہاں چین نے سعودی عدالت کی جانب سے کیس نمٹانے پر اعتماد کا اظہار کیا (Arab News 2019)۔
اس کےبدلے مغربی ایشیائی ممالک بنا کسی سوال و جواب کے چین کے اویغوروں پر ظلم وستم کی حمایت کرتے ہیں اور یہاں تک کہ چین کی درخواستوں کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے ملک میں مقیم اویغور جلاوطنوں کو گرفتار کرکے واپس چین بھی بھیجتے ہیں (BBC 2020)۔ چینی انٹیلی جنس اور سیکورٹی افسران بھی اکثر اپنے علاقائی ہم منصبوں کے ساتھ اس مسئلے پر تعاون بھی کرتےہیں (Uyghur Human Rights Project n.d.)۔ حد تو یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات حج کے دوران بھی ہوئے کیوں کہ چین سے باہر مقیم اویغوروں کے حج کےدوران حراست میں لیے جانے اور بعد ازاں چین بھیجےجانے کے واقعات سامنے آئے ہیں (Radio Free Asia 2020; Jardine 2022)۔
خلاصہ
مسلم ممالک کے اقدامات اور شنچیانگ میں اویغور آبادی کے ساتھ چین کے سلوک کے لیے ان کی واضح حمایت قابل تشویش ہے۔ نسل کشی سمیت انسانیت کے خلاف جرائم کے سنگین الزامات کے باوجود مغربی ایشیا کے ممالک چین پر تنقید کرنے سے گریز کرتے رہےہیں اور انہوں نے خود کو بیجنگ کی پالیسیوں سے ہم آہنگ کیا ہوا ہے۔ شاید اس کی وجہ سیاسی، معاشی اور نظریاتی عوامل کی یکسانیت ہے جس میں آمرانہ طرز حکمرانی میں مماثلت اور اختلاف رائے سے لڑنے کی یکساں حکمت عملی شامل ہے۔ مزید برآں چین کی دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کی اعلان کردہ پالیسی خطے کے آمررہنماؤں کے لئے ایک یقین دہانی ہے۔ چین پر ان کا معاشی انحصار اور خطے میں امریکہ اور مغربی طاقتوں کا گھٹتا ہوا اثر و رسوخ اس پر مستزاد ہے۔
چین نے مختلف ممالک کے پالیسی سازوں، مذہبی رہنماؤں، اور صحافیوں کو اویغور سے متعلق مسائل پر اپنا نقطہ نظر اپنانے کے لیے سٹریٹجک طور پر ایک جارحانہ کارروائی اپنائی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عربی میڈیا میں اویغوروں پر ظلم وجبر کی داستان نسبتاً کم دکھائی دیتی ہے۔ یہ ممالک اویغور جلاوطنوں کو پکڑنے ،چین واپس بھیجنے اور چینی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون کرنے جیسے اقدامات سے اویغور آبادی کو دبانے کی چین کی کوششوں کی کھلے عام حمایت کرتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان ممالک میں نام نہاد سول سوسائٹی یا تو مفقود ہے یا ان کے درمیان ایسے مسائل پر بہت کم بات ہوتی ہے۔ مزید برآں متعدد سروے بتاتے ہیں کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے مقابلے میں، مغربی ایشیا میں عام لوگوں میں چین کے تئیں مثبت ردعمل کا گراف بڑھ رہا ہے (Khurma 2023; Abdelbary and Al Lawati 2023)۔اس کے علاوہ ایران (Esfandiari 2020) جیسے ممالک میں محدوداختلافی آوازیں خاطر خواہ توجہ حاصل نہیں کرسکی ہیں۔
شنچیانگ میں چین کے اقدامات کے لیے ان ممالک کی حمایت بین الاقوامی اصولوں بشمول مذہبی اور نسلی اقلیتی آبادی کے ساتھ منصفانہ سلوک، کی پاسداری کے لیے ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں تشویش پیدا کرتی ہے۔ تاہم چین کے آمرانہ طرز کی نقالی اور اس کی حمایت کے ساتھ مستقبل قریب میں اس رویے میں کسی تبدیلی کے
امکانات معدوم ہیں۔
نوٹ: یہ مقالہ دراصل انگریزی زبان میں لکھا گیا تھا ۔ اس کا اردو ترجمہ ابوظفر نے کیاہے۔ اصل انگریزی مقالے کا حوالہ درج ذیل ہے۔
Zafar, Abu. 2023. ‘Turning a Blind Eye: West Asia and China’s Persecution of the Uyghurs’. Centre of Excellence for Himalayan Studies, Shiv Nadar Institution of Eminence. Issue Brief. No.1. July. 1-7.
حوالہ جات
Abdelbary, Mohammed. and Abbas Al Lawati. 2023. China Surpasses US In Popularity Among Arab Youth as Beijing Expands Middle East Footprint’. CNN. 21 June.
https://edition.cnn.com/2023/06/21/middleeast/china-surpasses-us-mideast-survey-mime-intl/index.html#:~:text=More%20young%20Arabs%20see%20China,relations%20firm%20ASDA'A%20BCW
Al Jazeera. 2021. ‘Uighur Tribunal Hears Evidence of Alleged China Abuses’. 4 June.
https://www.aljazeera.com/news/2021/6/4/uighur-tribunal-hears-evidence-of-alleged-china-abuses
Alta, Kuzzat. 2021. ‘Why Erdogan Has Abandoned the Uyghurs’. Foreign Policy. 2 March.
https://foreignpolicy.com/2021/03/02/why-erdogan-has-abandoned-the-uyghurs/
Andersen, Lars Erslev. and Camille Lons. 2020. ‘The Geopolitical Implications of China’s Presence in the MENA Region’. In The Role of China in the Middle East and North Africa (MENA). Beyond Economic Interests?’ ed. Katarzyna W. Sidło EuroMeSCo Joint Policy Study 16. 88-108.
Arab News. 2019. ‘Saudi Arabia, China Talk Human Rights, Xinjiang’. 25 December.
https://arab.news/mv7y6
BBC. ‘Uighurs in Exile: Arrested and deported back to China’. October 1, 2020.
https://www.bbc.co.uk/programmes/p08t0pfp
Byler, Darren. 2018. ‘China’s Nightmare Homestay: Xinjiang’s Uighur Children Monitor Their Parents’. Foreign Policy. 26 October. https://foreignpolicy.com/2018/10/26/china-nightmare-homestay-xinjiang-uighur-monitor/
Campaign for Uyghurs. 2023. ‘CFU Condemns the Arab League’s Propaganda Tour to East Turkistan’. 5 June.
https://campaignforuyghurs.org/cfu-condemns-the-arab-leagues-propaganda-tour-to-east-turkistan/
Ensor, Josie. 2019. ‘Saudi Crown Prince Defends China’s Right to Put Uighur Muslims in Concentration Camps’. The Telegraph. 22 February.
https://www.telegraph.co.uk/news/2019/02/22/saudi-crown-prince-defends-chinas-right-put-uighur-muslims-concentration/
Esfandiari, Golnaz. 2020. ‘Ex-Lawmaker Raises Rare Criticism of Iran's Silence About China's Abuse of Uyghurs, Other Muslims’. Radio Free Europe/Radio Liberty. 7 August.
https://www.rferl.org/a/ex-lawmaker-raises-rare-criticism-of-iran-s-silence-about-china-s-abuse-of-uyghurs-other-muslims/30771986.html
Farge, Emma, 2022. ‘UN Body Rejects Historic Debate on China’s Human Rights Record’. Reuters. 7 October.
https://www.reuters.com/world/china/un-body-rejects-historic-debate-chinas-human-rights-record-2022-10-06/
Global Times. 2023. ‘Arab League’s Visit to Xinjiang Rejects Western Accusations of Ethnic Genocide, Religious Persecution’. 5 June. https://www.globaltimes.cn/page/202306/1291964.shtml
Hoffman, Jon. 2023. ‘Why China Has Found Willing Partners in the Middle East for Its Uyghur Repression’. Dawn. 5 May.
https://dawnmena.org/why-china-has-found-willing-partners-in-the-middle-east-for-its-uyghur-repression/
Human Rights Watch. 2021. ‘Break Their Lineage, Break Their Roots: China’s Crimes Against Humanity Targeting Uyghurs and Other Turkic Muslims’. 19 April.
https://www.hrw.org/report/2021/04/19/break-their-lineage-break-their-roots/chinas-crimes-against-humanity-targeting
Jardine, Bradley. 2022. ‘How the Arab World Became Complicit in China’s Repression of the Uighurs’. Time. 24 March.
https://time.com/6160282/arab-world-complicit-china-repression-uighurs/
Khurma, Merissa. 2023. ‘China has a Growing Presence in Arab Hearts and Minds’ Wilson Center. 5 June.
https://www.wilsoncenter.org/article/china-has-growing-presence-arab-hearts-and-minds#:~:text=Many%20Arabs%20see%20China%20as,power%20will%20remain%20largely%20positive
Kuo, Lily. 2018. ‘Chinese Authorities Launch Anti-Halal Crackdown in Xinjiang’. The Guardian. 10 October. https://www.theguardian.com/world/2018/oct/10/chinese-authorities-launch-anti-halal-crackdown-in-xinjiang
Lew, Linda. 2021. ‘China Census: Migration Drives Han Population Growth in Xinjiang’. South China Morning Post. 15 June. https://www.scmp.com/news/china/politics/article/3137252/china-census-migration-drives-han-population-growth-xinjiang
Li, Wensheng. 2019. ‘“Hanification” of Xinjiang Through False Promises and Threats’. Bitter Winter. 27 June.
https://bitterwinter.org/hanification-of-xinjiang-through-false-promises-and-threats/
Maizland, Lindsay. 2022. ‘China’s Repression of Uyghurs in Xinjiang’. Council on Foreign Relations (CFR). 22 September.
https://www.cfr.org/backgrounder/china-xinjiang-uyghurs-muslims-repression-genocide-human-rights
Ministry of Foreign Affairs of the People’s Republic of China. 2023. ‘Foreign Ministry Spokesperson’s Remarks on the US Senate’s Passing of the So-called ‘Strategic Competition Act of 2021’ 5 June.
https://www.fmprc.gov.cn/mfa_eng/xwfw_665399/s2510_665401/202306/t20230605_11089988.html
Office of the United Nations High Commissioner for Human Rights (OHCHR). 2022. ‘Final Assessment on the Situation of Human Rights in Xinjiang, China’. 31 August.
https://www.ohchr.org/sites/default/files/documents/countries/2022-08-31/22-08-31-final-assesment.pdf
Pradhan, S. D. 2020. ‘Dragon intensifies its ethnic cleansing programme in Xinjiang; justifies its removal from the permanent membership of UNSC’. The Times of India. 27 September.
https://timesofindia.indiatimes.com/blogs/ChanakyaCode/dragon-intensifies-its-ethnic-cleansing-programme-in-xinjiang-justifies-its-removal-from-the-permanent-membership-of-unsc/
Putz, Catherine. 2020. ‘2020 Edition: Which Countries Are for or Against China’s Xinjiang Policies?’ The Diplomat. 9 October. https://thediplomat.com/2020/10/2020-edition-which-countries-are-for-or-against-chinas-xinjiang-policies/
Radio Free Asia. 2020. ‘Egypt, Morocco, Saudi Arabia Deport Uyghurs to China, Ignoring Protest by Rights Groups’. 16 October. https://www.rfa.org/english/news/uyghur/deportation-10162020150910.html
Ruser, Nathan. James Leibold, Kelsey Munro and Tilla Hoja 2020. ‘Cultural Erasure: Tracing the Destruction of Uyghur and Islamic Spaces in Xinjiang’. Australian Strategic Policy Institute. 24 September.
https://www.aspi.org.au/report/cultural-erasure
Samuel, Sigal. 2018. ‘China Is Treating Islam Like a Mental Illness’. The Atlantic. 28 August.
https://www.theatlantic.com/international/archive/2018/08/china-pathologizing-uighur-muslims-mental-illness/568525/
The Consulate General of the People’s Republic of China in Toronto. 2021. ‘Main Data of Xinjiang Uygur Autonomous Region from the Seventh National Population Census’. 14 June.
https://web.archive.org/web/20220613171035/https://www.fmprc.gov.cn/ce/cgtrt/eng/news/t1884310.htm
United Nations News. 2022. ‘UN Human Rights Chief Welcomes UN Resolution on China’s Xinjiang, Calls for Concrete Action’. 31 August. https://news.un.org/en/story/2022/08/1125932
Uyghur Human Rights Project (UHRP). 2022. ‘Beyond Silence: Collaboration Between Arab States and China in the Transnational Repression of Uyghurs’. 24 March.
https://uhrp.org/report/beyond-silence-collaboration-between-arab-states-and-china-in-the-transnational-repression-of-uyghurs/
Wani, Ayjaz. 2023. ‘China’s Fading Perception Management in Xinjiang’. Observer Research Foundation. 17 January.
https://www.orfonline.org/expert-speak/chinas-fading-perception-management-in-xinjiang/
World Bulletin. 2009. ‘Iranian Clerics Condemn China, Iran’s Silence on Uighur Victims’. 19 July.
https://www.worldbulletin.net/archive/iranian-clerics-condemn-china-irans-silence-on-uighur-victims-h44728.html
Younes, Ali. 2019. ‘Activists Hail Qatar Withdrawal from Pro-China Text Over Uighurs’. Al Jazeera. 21 August.
https://www.aljazeera.com/news/2019/8/21/activists-hail-qatar-withdrawal-from-pro-china-text-over-uighurs.
Zafar, Abu. 2023. ‘Civil War in Syria: Understanding the Chinese Response’. In Mujib Alam and Sujata Ashwarya (Eds.). Arab Spring and its Legacies. New Delhi: KW Publishers. 106-121.
Share this on: