...

17 December 2025

طالبان کی چین اور امریکہ کے درمیان توازن کی حکمت عملی



 انیس ستمبر کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر افغانستان میں واقع بگرام ایئر بیس دوبارہ حاصل کرنے کے اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ چینی جوہری تنصیبات کے قریب واقع ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے  انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پر لکھا کہ اگر طالبان نے اس پر رضامندی ظاہر نہ کی تو اس کے "برے نتائج سامنے آئیں گے"۔ اس کے جواب میں طالبان نے واضح کیا کہ وہ  اپنے ملک کی "آزادی اور علاقائی سالمیت" پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ چین نے افغانستان کی خودمختاری کی حمایت کا اعلان کیا، جو خطے میں مغربی عسکری موجودگی کی ممکنہ بحالی کے خلاف اس کی مزاحمت کا اشارہ ہے۔

مگر پس پردہ طالبان اور امریکہ خاموشی سے تعلقات معمول پر لا رہے ہیں۔ حال ہی میں طالبان نے نارملائزیشن کے عمل کے تحت قیدیوں کا تبادلہ کیا۔ طالبان ممکنہ طور پر بیجنگ کے ساتھ اپنے تعلقات کی حدود پر بھی نظرِ ثانی کر رہے ہیں، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ اسرائیل کے ایران پر حملوں کے دوران چین اور روس نے ایران کی فوری بھرپور حمایت نہیں کی تھی۔ طالبان شاید یہ سمجھتے ہیں کہ چین کے بہت زیادہ قریب ہو کر امریکہ کو ناراض کرنے کے بجائے، واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھنا ان کے مفاد میں ہے۔

افغانستان طویل عرصے سے متحارب طاقتوں کے درمیان توازن کی ایک نازک ڈور پر چلتا آیا ہے۔ برطانیہ–روس ’’گریٹ گیم‘‘ سے لے کر سرد جنگ میں امریکہ اور سوویت یونین کی رقابت تک یہاں کے حکمرانوں نے اپنی خودمختاری کی حفاظت اور فوائد کے حصول کے لیے اسٹریٹجک توازن پر انحصار کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی وہ  اس میں کامیاب رہے اور کبھی بیرونی اور اندرونی دباؤ کے باعث ناکام ہو گئے۔

انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں افغانستان کی خارجہ پالیسی بڑی حد تک برطانوی مفادات نے تشکیل دی جن کا مقصد دریائے آمو کے پار روسی اثر و رسوخ کو محدود رکھنا تھا۔ 1919 میں جب امان اللہ خان نے برطانوی تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے افغانستان کی آزادی کا اعلان کیا تو ان کی بادشاہت ختم ہو گئی۔ اسی طرح دوسری جنگِ عظیم کے بعد ظاہر شاہ نے امریکہ اور سوویت حمایت کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کی۔ تاہم جب صدر داؤد خان نے سوویت اثر کم کرنے اور امریکہ کی طرف جھکاؤ اختیار کرنے کی کوشش کی تو 1978 میں سوویت نواز قوتوں نے بغاوت کر دی، جس کے نتیجے میں افغانستان کئی دہائیوں پر محیط جنگ کی لپیٹ میں آ گیا۔

اس بار طالبان بھی اسی نوعیت کا توازن چین اور امریکہ کے درمیان قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 2021 میں امریکی انخلا کے بعد چین اور طالبان کے تعلقات میں نمایاں تیزی دیکھنے میں آئی تھی۔ سفارتی روابط کے فروغ سے لے کر سرمایہ کاری کے معاہدوں تک یہ تعلق ایک اسٹریٹجک شراکت داری کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ جنوری 2023 میں طالبان نے شنچیانگ سینٹرل ایشیا پیٹرولیم اینڈ گیس کمپنی (CAPEIC) کے ساتھ آمو دریا کے علاقے میں تیل نکالنے کے لیے 25 سالہ تاریخی معاہدہ کیا۔ اسے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم موڑ قرار دیا گیا اور اس سے روزگار کے مواقع اور علاقائی انضمام کی امیدیں وابستہ کی گئیں۔ تاہم 2025 کے وسط تک یہ معاہدہ عملاً ناکام ہو چکا تھا، جو طالبان کے ساتھ چین کی وابستگی میں ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتا ہے۔

اگست 2025 میں طالبان حکام نے آمو دریا تیل منصوبے سے تعلق رکھنے والے 12 چینی ملازمین کو حراست میں لیا، ان کے پاسپورٹ ضبط کر لیے اور کام کو معطل کر دیا۔ اگرچہ آٹھ ملازمین کو ستمبر کے اوائل میں رہا کر دیا گیا لیکن چار ابھی بھی حراست میں ہیں۔ طالبان نے چینی کمپنی پر معاہدے کے شرائط کی خلاف ورزی ، بطور خاص رائلٹی نہ ادا کرنےکا الزام لگایا ۔ اس کے برعکس چینی ذرائع نے غیر منصفانہ شرائط پر معاہدہ تبدیل کرنے کا سیاسی دباؤ بتایا۔

آمو دریا تنازعہ ایک واضح عدم توازن کو ظاہر کرتا ہے۔ طالبان کے لیے چین قانونی جواز اور ممکنہ سرمایہ کاری فراہم کرسکتا ہے جب کہ چین کے لیے افغانستان ایک اسٹریٹجک خطرے کا منبع ہے۔ اگرچہ طالبان نے بار بار بیجنگ سے درخواست کی کہ کولڈ اسٹوریج کی سہولیات قائم کی جائیں، چین کے لیے براہِ راست پروازیں شروع کی جائیں اور صنعتی زون کی مدد کی جائے لیکن چینی ردعمل میں سردمہری ہی رہی۔

بیجنگ میں سلامتی کو اولین ترجیح دینے والی سوچ غالب ہے۔2021 کے بعد سے چین نے افغانستان میں 20 سے زائد بین الاقوامی  شدت پسند گروپوں خاص طور پر ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ETIM)کی موجودگی پر زور دیا ہے۔ Iraf کی ایک رپورٹ کے مطابق شمالی صوبوں جیسے تخار، قندوز، بدخشاں اور نورستان میں اس وقت تقریباً 15ہزارسے 35 ہزار ایویغور شدت پسند اور ان کے خاندان مقیم ہیں۔ پچھلے اگست میں کابل کے دورے پر چینی وزیرِ خارجہ وانگ ای نے مبینہ طور پر طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی رینک سے ایویغور لڑاکوں کو نکالیں۔ یہ درخواست ایسی ہے جو تعلقات کے مستقبل پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔

چین نے طالبان کے مقرر کردہ سفیر کو قبول تو کر لیا ہے لیکن اب تک طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم نہیں کیا ہے تاکہ اس کے لیے سفارتی آپشن کھلے رہیں۔ چین شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسے پلیٹ فارم کے ذریعے رابطہ کاری جاری رکھے ہوئے ہے تاہم اس میں طالبان کی شرکت اب بھی غیر یقینی ہے۔

ایک ایسے انتشار زدہ عالمی نظام میں جہاں اتحاد مستقل نہیں ہوتے اور قومی مفاد پر مبنی ہوتے ہیں، طالبان اب امریکہ کے ساتھ روابط بڑھانے کے لیے زیادہ آمادہ لگ رہے ہیں۔یہ کسی قسم کی پسپائی نہیں بلکہ ایک حفاظتی تدبیر ہے۔ افغانستان  کی برطانوی اور سوویت حملوں سے لے کر مجاہدین کی امریکی حمایت اور بیس سالہ امریکی فوجی قبضہ تک مغربی طاقتوں کے ساتھ تعلق کی ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ ہے ۔ طالبان اپنی تمام تر نظریاتی سختی کے باوجود مغربی قوتوں سے نابلد نہیں ہیں۔ اس کے برعکس چین ان کے لیے ایک نامانوس خطہ  ہے۔ یہ ایک ایسا شراکت دار  ہےجس کے ساتھ کوئی مشترکہ ثقافتی، مذہبی یا تاریخی رشتہ نہیں  ہے۔

افغانستان کے بارے میں چین کی پالیسی جو کبھی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں خاموش شمولیت کی امید سے تقویت پا رہی تھی، بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہے۔ طالبان بھی اپنی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کر رہے ہیں۔ جس میں وہ امریکہ کے ساتھ دوبارہ بات چیت کا آغاز کررہے ہیں اور چین پر مرکوز حکمتِ عملی کی حدود کا ازسرِنو جائزہ لے رہے ہیں۔

افغانستان کی سیاست میں زندہ رہنے کا ہنر ہمیشہ بڑی طاقتوں کی رقابت کے بیچ توازن قائم رکھنے میں رہا ہے، بغیر اس کے کہ وہ رقابت ملک کو نگل جائے۔ 2025 میں ایک بار پھر اس ہنر کو آزمائش کا سامنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ طالبان مشرق اور مغرب کے درمیان اور معاشی ضرورتوں اور سیاسی نظریے کے بیچ اس نازک توازن کو برقرار رکھ پاتے ہیں یا نہیں۔


Original: Rustam Ali Seerat. 2025. ‘Old Game, New Players: Taliban Balances between China and the United States’. Commentary. Centre of Excellence for Himalayan Studies. 23 September.

Translated by Abu Zafar