
30 January 2025
چین میں ہان نسلی برتری اور اقلیتوں کی صورت حال
گزشتہ8 اکتوبر کو بیجنگ میں کمیونسٹ پارٹی کے تیسرے بڑے لیڈر اور چین کی سب سے اعلیٰ قانون ساز اسمبلی کے سربراہ، وُو پانگ کُوا نے 83 سال کی عمر میں وفات پائی۔
شِنہوا کے ایک سرکاری تعزیتی پیغام میں وُو کو ایک "شاندار رہنما" قرار دیا گیا۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے لکھا:
"وُو مغرب کےسیاسی نظام کے خلاف اپنی سخت مخالفت کے لیے جانےجاتے تھے۔ 2011 میں نیشنل پیپلز کانگریس کے ایک سیمینار میں وُو نے پانچ سیاسی نظاموں بشمول کئی پارٹیوں پر مبنی نظام، تکثیری نظریات، وفاقیت، نجکاری، طاقتوں کی تقسیم اور دو ایوانی نظام (bicameralism) کے بارے میں کہاتھا کہ یہ چین میں نافذ نہیں کیا جا سکتا۔"
وُو کا کہنا تھا :"ہم مغرب کے سیاسی نظام کی ہرگز نقل نہیں کریں گے"۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ چین کا سیاسی نظام کیا ہے؟ کیا یہ واقعی اعلیٰ ہے؟ آگے ہم دیکھیں گے کہ ایسا نہیں ہے۔
اقلیتی علاقوں میں بے چینی
کمیونسٹ پارٹی آف چائنا میں سیکورٹی کے لیے بڑے اور اہم ادارے مرکزی کمیٹی برائے سیاسی و قانونی امور(CPLAC) کے سربراہ چَھن وِینگ چِھنگ جنہوں نے حال ہی میں تبت کا دورہ کیا ، کے بقول: "تبت کے علاقے میں استحکام برقرار رکھنا اور آزادی کی سرگرمیوں کے خلاف تحفظ دینا سکیورٹی فورسز کی اولین ترجیحات ہیں... سکیورٹی فورسز کو علیحدگی پسند اور تخریبی سرگرمیوں کے خلاف سختی سے کریک ڈاؤن کرنا ہوگا۔" انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کو "مذہبی امور کی سخت نگرانی کرنی ہوگی۔عام مذہبی سرگرمیوں کو اچھی طرح چلانے کی اجازت دینی ہوگی تاکہ خطرات کو روکا جا سکے، جرائم پر قابو پایا جا سکے اور استحکام قائم کیا جا سکے۔"
اپنے دورے کے دوران چِھن نے لہاسا اور چامدو میں سکیورٹی اکائیوں کو "تمام نسلی گروہوں میں قومی شناخت کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے زیادہ پروپیگنڈا اور تعلیمی مہمات چلانے" کا حکم دیا۔
اس کا مطلب ہے کہ تبت کے لوگ پہلے چینی ہیں، پھر تبتی۔
صرف اسی سے بس نہیں۔ بلکہ تقریبا انہیں دنوں سپریم پیپلز کورٹ کے صدر چانگ چُن نے تبت کی کچھ عدالتوں کا معائنہ کرتے ہوئے کہا کہ "تشدد پر مبنی دہشت گردی، نسلی علیحدگی پسندی، اور دیگر سنگین جرائم پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے سخت سزائیں "ضروری ہے۔ ایک ماہ قبل سپریم پیپلز پروکیوریٹ کے سربراہ یِنگ یانگ نے لاسا میں اس بات پر زور دیا کہ استغاثہ کو "ہر طرح کی علیحدگی پسندی، دراندازی، تخریب کاری کی سرگرمیوں اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے جرائم کے خلاف قانون کے تحت سخت کارروائی کرنی چاہیے۔"
اس سیاسی نظام میں ایسی کون سی برتری ہے جس کی وجہ سے تبتیوں کے ساتھ اتنی سختی سے پیش آنا ضروری سمجھا جا رہا ہے؟
وہ حقیقی خودمختاری کہاں ہے جس کا دلائی لاما نے مطالبہ کیا تھا؟
بہر حال، تبت خودمختار علاقہ کے پارٹی سیکرٹری وانگ چُن چنگ نے 22 ستمبر سے 28 ستمبر تک منگولیا اور جنوبی کوریا کا دورہ کرتے ہوئے "شی جن پنگ کے سفارتی خیالات کو مکمل طور پر فروغ دینے، ثقافتی اور اقتصادی تبادلے بڑھانے اور دونوں طرف کے لیے فائدہ مند تعاون کی نئی صورت حال پیدا کرنے کا دعویٰ کیا " انہوں نے کہاکہ شی جن پنگ" تبت کے کام کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور تبت کے تمام نسلی گروپوں کے لوگوں کی بہت زیادہ پرواہ کرتے ہیں۔"
کیا چین بدلے گا؟
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ چین کو خود کو بدلنے کے لیے وقت دینا چاہیے تاکہ وہ جمہوری نظام کی طرف بتدریج بڑھ سکے۔ وہ یہ تسلیم نہیں کر پارہے ہیں کہ یہ 'وقت' اقلیتی گروپوں کے خلاف بھی گزر رہا ہے، اور چین کسی صورت میں تبدیلی نہیں چاہتا۔
تقریباً 40 سال پہلے میں نے دالائی لاما سے سوال کیا تھا کہ تبت دوبارہ اپنی آزادی (یا خودمختاری) کیسے حاصل کرے گا؛ اُس وقت ان کا جواب تھا، "یہ ہم تبتیوں پر منحصر نہیں ہے؛ تبدیلی چین کے اندر سے آئے گی۔" انہوں نے بار ہا کہا کہ چینی عوام اپنے ملک میں تبدیلی لائیں گے،جس سے تبت کے لوگوں کو اپنے مقاصد کے حصول کا موقع ملے گا۔
لگتا ہے کہ ابھی وہ دن بہت دور ہے۔
اس تناظر میں تبت کے بزرگ کمیونسٹ رہنما فنٹسوک وانگ یال(Phüntsok Wangyal ) جنہوں نے 1951 میں چینی فوجیوں کی لاسا میں رہنمائی کی تھی، کے 20 سال پہلے اس وقت کے صدر ہو جنتاؤ کو ارسال کردہ تین خطوط کو چین میں ایک بڑی بحث کا موضوع بننا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
وانگ یال (جنہیں تبت والے فن وانگ کے نام سے جانتے ہیں) نے ہو کو کچھ دلچسپ باتیں بتائیں: دالائی لاما کی وفات نوجوان تبتیوں کو ان کے "درمیانے راستے" کے نقطہ نظر سے مایوس کر کے مزید شدت پسند بنا دے گی؛ انہوں نے ہو کو یاد دلایا کہ ان کا خود کا مقصد بھی "ہم آہنگی والے معاشرے" کا قیام ہے؛ اور اگر ہوجنتاو جلاوطنی کی زندگی بسر کررہے ہزاروں تبتی مہاجرین کی واپسی کے لیے کام کریں تو وہ "مخالفت کو ہم آہنگی میں تبدیل کر سکتے ہیں"۔
تبت کا پرچم
وانگیال کے بارے میں ایک اور تاریخی واقعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ مسئلہ کون سا موڑ لے سکتا تھا۔
1990 کی دہائی میں دلائی لاما کے بہنوئی فُنٹسو تاشی تکلا (Phuntso Tashi Takla) جو دلائی لاما کے 1954-55 میں چین کے دورہ کے دوران ان کی سکیورٹی کے ذمہ دار تھے، کے ساتھ ایک انٹرویو میں وانگیال نے کہا:
"اس وقت [1954 میں] چوں کہ تبت پر چین کا مکمل قبضہ نہیں ہوا تھا اس لیے چین نے دلائی لاما کے ساتھ مکمل عزت و احترام اور تعاون کا معاملہ کیا۔ بعض اوقات ماؤ زے تنگ خود دلائی لاما کی(بیجنگ میں واقع) رہائش گاہ پر آتے تھے۔ ایک بار دلائی لاما اور ماؤ زے تنگ کسی موضوع پر بات کر رہے تھے کہ ماؤ نے اچانک کہا، "کیا آپ کا اپنا کوئی پرچم نہیں ہے؟ اگر ہے، تو آپ اسے یہاں [مہمان خانہ] نصب کریں۔'
تکلا ماؤ کے منھ سے یہ سن کر حیران ہوئے۔
بعد میں میں نےجب فن وانگ کی سوانح عمری پڑھا تو مجھے ماؤ کے اس بیان کے وسیع اثرات کا بہتر اندازہ ہوا۔
یہاں فن وانگ کا قول نقل کرنا دلچسپ سے خالی نہ ہوگا: "ایک دن ماؤ اچانک دلائی لاما سے ملنے ان کی رہائش گاہ [مہمان خانہ] آئے... بات چیت کے دوران ماؤ نے اچانک کہا، 'میں نے سنا ہے کہ آپ کا اپنا قومی پرچم ہے، کیا یہ سچ ہے؟ وہ نہیں چاہتے کہ آپ اسے لہرائیں، کیا یہ بات صحیح ہے؟"
فن وانگ نے مزید یاد کیا: "چوں کہ ماؤ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے یہ سوال کیا اس لیے دلائی لاما نے صرف اتنا جواب دیا، 'ہمارے پاس فوجی پرچم ہے'۔ مجھے لگتا ہے یہ جواب ہوشیاری پر مبنی تھا کیوں کہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ تبت کا اپنا قومی پرچم ہے یا نہیں۔ ماؤ نے سمجھا کہ دلائی لاما اس سوال سے پریشان ہیں اورانہوں نے فوراً جواب دیا، 'یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، آپ اپنا قومی پرچم رکھ سکتے ہیں'۔
واضح رہے کہ ماؤ نے 'قومی پرچم' کہا تھا۔
چئیرمین ماؤ نے مزید کہا کہ مستقبل میں کمیونسٹ پارٹی شنچیانگ اور اندرونی منگولیا کو بھی اپنا پرچم رکھنے کی اجازت دے سکتی ہے۔ پھر ماؤ نے دلائی لاما سے پوچھا کہ کیا یہ ٹھیک ہوگا کہ وہ تبت کے پرچم کے ساتھ ساتھ عوامی جمہوریہ چین کا قومی پرچم بھی لہرائیں۔ فُن وانگ نے کہا کہ نوجوان لاما نے سر ہلایا اور کہا 'ہاں'۔
فُن وانگ نے بعد میں لکھا "یہ وہ سب سے اہم بات تھی جو ماؤ نے دلائی لاما سے کہی، اور مجھے یہ سن کر بہت حیرانی ہوئی" ۔
ہان کی نسلی برتری
فُن وانگ کو یقینی طور پر پتہ نہیں تھا کہ آیا ماؤ نے اس پر پولیٹ بیورو کے دوسرے رہنماؤں سے بات کی تھی یا یہ ان کا اپنا خیال تھا: "کیوں کہ میں نے ہمیشہ سوویت یونین کے قومیت کے ماڈل کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا ہے اس لیے مجھے خوشی ہوئی کیوں کہ میں نے ماؤ کے اس بیان کہ 'تبت اپنا پرچم استعمال کر سکتا ہے' کو اس طور پرسمجھا کہ چین کم از کم ان تین بڑے اقلیتی گروپوں کے لیے سوویت یونین کے 'ریپبلک' ماڈل کو اپنا رہا ہے ۔"
فُن وانگ کا خیال تھا کہ عظیم رہنما(ماؤ) کا یہ معمولی سا بیان چین کے مستقبل اور خصوصاً تبت کے لیے گہرے اثرات رکھتا تھا۔ بدقسمتی سے فُن وانگ کو اپریل 1958 میں گرفتار کر لیا گیا اور اگلے 18 سال انہوں نے قید تنہائی میں بسر کیے۔ اس دوران انہوں نے مارکسزم کا مطالعہ کیا جس سے انہیں یہ یقین ہوا کہ مختلف قوموں پر مشتمل کسی ریاست میں قومیتوں کے درمیان تعلق مکمل مساوات پر مبنی ہونا چاہیے۔
تبت میں آج تک صرف ہان نسل کے لوگ ہی پارٹی سیکریٹری رہے ہیں۔ چینی قیادت ابی بھی تبتیوں اور دیگر اقلیتی گروپوں پر اعتماد نہیں کرتی۔ چین کو آج جتنے مسائل درپیش ہیں ان میں زیادہ تر اسی عظیم ہان نسلی برتری کی وجہ سے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ وُو پانگ کُوا کو یقین رہا ہو کہ چینی نظام سب سے بہتر ہے مگر چین میں آج پارٹی پروپیگنڈہ کے علاوہ اقلیتوں کا کوئی مقام نہیں ہے۔
ہم لہاسا کے پوتالا پر تبت کا پرچم کب دیکھیں گے؟
Original: Claude Arpi. 2024. ‘The Non-Existent Space for Ethnic Minorities in China Amid Han Chauvinism’. Centre of Excellence for Himalayan Studies, Shiv Nadar Institution of Eminence. Commentary. 29 October.
Translated by Abu Zafar
Share this on: