...

15 May 2025

چین کی'وولف واریئر' سفارت کاری میں تبدیلی کا رجحان



چین کی جارحانہ یا 'وولف واریئر' (wolf warrior) سفارت کاری کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (CPC) کے جنرل سیکرٹری شی جن پنگ کے  " نئے عہد"کی چینی خارجہ پالیسی کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اسے ایک ایسی طاقتور چینی قوم پرستی کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے جو موجودہ عالمی نظام سے غیر مطمئن  اور نالاں ہے۔ اس نظام کو مغربی اثرات سے حد سے زیادہ متاثر سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ انسانی حقوق اور معاشی ترقی جیسے عالمی اصولوں کو فروغ دیتا ہے، جو چین کی کمیونسٹ پارٹی کے مطابق اُس کے کامیاب سیاسی و معاشی ماڈل کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

تاہم یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ چینی سفارت کار اُسی طرح غیر ذمہ دار اور بے لگام ہوتے ہیں جیسے ان مشہور چینی فلموں کے ہیرو، جن پر 'وولف واریئر' کی اصطلاح مبنی ہے۔ چین کی 'وولف واریئر' سفارت کاری صرف سخت لہجے یا تلخ انداز تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک سوچا سمجھا طریقہ ہے جس کے ذریعے غیر ملکی حکومتوں اور عوام پر دباؤ ڈالا جاتا ہے  اور ساتھ ہی ساتھ دیگر محاذوں پر چین کی طرف سےمذاکرات کے لیے آمادگی کا تاثر بھی دیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ دباؤ کی شدت اور بات چیت کی گنجائش کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ سامنے والا فریق کون ہے، اور اُس وقت علاقائی یا عالمی حالات کا کیا رخ ہے۔صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دینے والی بات یہ ہے کہ سی پی سی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی عوام کو یہ واضح پیغام دے کہ متعلقہ ملک کے ساتھ کس انداز میں تعلقات رکھنے ہیں۔

مختصراً یہ کہ چین کی 'وولف واریئر' سفارت کاری ہر جگہ ایک جیسی نہیں ہے بلکہ ممالک کے درمیان طاقت کے توازن پر مبنی ایک پیچیدہ حکمت عملی ہے۔ ذیل میں چار حالیہ مثال جن میں امریکہ، یورپ، جاپان اور ہندوستان شامل ہیں، میں اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔

امریکہ سے نمٹنے کا ایک انداز

مارچ کے آغاز میں چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ٹویٹ کیا کہ فینٹانائل کا مسئلہ "چینی درآمدات پر امریکی محصولات بڑھانے کے لیے ایک کمزور بہانہ ہے"۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ بذات خود اس بحران کا ذمہ دار ہے۔" وزارتِ خارجہ کے ٹویٹ میں مزید کہا گیا، "انسانیت اور امریکی عوام کے لیے نیک نیتی کے جذبے کے تحت ہم نے اس مسئلے سے نمٹنے میں امریکہ کی مدد کے لیے موثر اقدامات کیے ہیں۔"

اس میں مزید کہا گیا کہ: " ہم دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتے اور نہ ہی دباؤ ڈالنے کی پالیسی ہمارے سامنے مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ چین کے ساتھ معاملات طے کرنے کا صحیح طریقہ زبردستی، جبر یا دھمکی نہیں۔ جو کوئی بھی چین پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی حکمتِ عملی اختیار کرتا ہے وہ نہ صرف غلط فریق کا انتخاب کر رہا ہے بلکہ سنگین غلط فہمی کا بھی شکار ہے۔"

امریکہ میں چینی سفارت خانے نے بعد میں اپنی وزارتِ خارجہ کے ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: "اگر امریکہ جنگ چاہتا ہے، چاہے وہ تجارتی محصولات کی جنگ ہو، تجارت کی جنگ ہو یا کسی اور قسم کی، تو ہم آخر دم تک لڑنے کے لیے تیار ہیں۔"تاہم تقریباً ایک گھنٹے بعد اس سخت پیغام کو کچھ نرم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک دوسرا جملہ شامل کیا گیا: "اگر امریکہ واقعی فینٹانائل کے مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے تو درست طریقہ یہ ہے کہ چین کے ساتھ برابری کی سطح پر صلاح ومشورہ کیا جائے۔"

اگرچہ بیجنگ کی خواہش ہے کہ اسے امریکہ کے برابر سمجھا جائے لیکن وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ وہ ابھی اس مقام تک نہیں پہنچا اور اُسے اپنی معیشت کو متوازن کرنے اور مغربی ممالک کی تجارتی علیحدگی (decoupling) کی کوششوں کے پیشِ نظر اپنے عالمی تجارتی روابط کو نئے سرے سے ترتیب دینے کے لیے وقت درکار ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اگرچہ ٹرمپ  کی دوسری حکومت کے دوران محصولات کے نفاذ پر چین نے نسبتاً تیزی سے جواب دیاجب کہ پہلی حکومت کے وقت اسے کئی ماہ لگے تھے،پھر بھی اس نے امریکی مصنوعات پر اتنی سخت پابندیاں نہیں لگائیں جتنی امریکہ نے چینی مصنوعات پر عائد کی تھیں۔یقیناً چینی حکومت سخت محنت کر رہی ہے تاکہ اپنی عوام اور دنیا کو یہ تاثر دے کہ وہ امریکہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے، جب کہ ساتھ ہی واشنگٹن کو یہ اشارہ بھی دے رہی ہے کہ بات چیت کی گنجائش موجود ہے۔

امریکہ کے اتحادیوں  سے نمٹنےکے لیے ایک مختلف انداز

یورپ ، جس کے تعلقات اس وقت روس-یوکرین تنازع، محصولات اور یورپی دفاعی بجٹ میں اضافے کے امریکی مطالبات کے باعث واشنگٹن سے کشیدگی کا شکار ہیں،  کے خلاف چین نے بظاہر ایک سخت رویہ اختیار کیا ہے۔چین کے ذریعہ یورپی امور کے لیے معروف سخت گرین سفارت کار لو شائے (Lu Shaye) کی بطور خصوصی نمائندہ تقرری سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔پیرس میں بطور سفیر اپنے پانچ سالہ دور میں لو شائے نے فرانس میں کورونا سے اموات سے متعلق غلط دعوے کیے اور 2023 میں یہ بھی بیان دیا کہ سابق سوویت ریاستوں کی بین الاقوامی قانون میں "کوئی مؤثر حیثیت نہیں ہے۔" چین نے اُس وقت اس بیان کو لو شائے کی ذاتی رائے قرار دے کر مسترد کر دیا تھا لیکن اب ان کی دوبارہ تقرری یہ ظاہر کرتی ہے کہ یوکرین کے انجام سے متعلق چین کی بے نیازی واضح ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ چاہے لو (Lu) کی تقرری ہو یا نہ ہو لیکن  چین  اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یورپ میں ٹرمپ حکومت کے خلاف پائی جانے والی ناپسندیدگی اور ان کی غیر یقینی پالیسیوں سے بچنے کے لیے سیاسی اور معاشی متبادل تیار کرنے کی خواہش نے چین کو یہ موقع فراہم کیا  ہے کہ وہ اپنی مرضی کے فیصلے منوا سکے ۔دوسری طرف چین کے اندر یہ تقرری نہ صرف مغرب مخالف سوچ کو تقویت دیتی ہے بلکہ چین کو یورپی یونین سے بڑی اور زیادہ بااثر عالمی طاقت کے طور پر بھی پیش کرتی ہے۔

دنیا کے دوسرے کونے یعنی جاپان میں چین جاپانی سیاسی قیادت سے تعلقات بہتر بنانے کا خواہاں ہے، خاص طور پر جب سے شنزو آبے نے جاپانی وزیرِ اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔ تاہم گرچہ چین کا یہ ماننا ہے  کہ "قریبی ہمسائے دور کے رشتے داروں سے بہتر ہوتے ہیں"، پھر بھی وہ ٹوکیو پر مختلف محاذوں پر دباؤ بنائے ہوئے ہے۔ مثال کے طور پر اس نے فوکوشیما کے جوہری سانحے کے بعد جاپانی سمندری اور زرعی مصنوعات پر عائد کردہ درآمدی پابندیاں ابھی تک ختم نہیں کی ہیں۔تاہم جاپان پر دباؤ ڈالنے کے لیے چین کا سب سے مستقل ہتھیار دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کے کردار کا بار بار حوالہ دینا ہے۔

مارچ کے مہینے میں ایسے دو واقعات پیش آئے۔ماہ کے آغاز میں بیجنگ میں نیشنل پیپلز کانگریس کے موقع پر عالمی میڈیا سے سالانہ پریس کانفرنس کے دوران چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے اعلان کیا کہ ان کا ملک "چینی عوام کی جاپانی جارحیت کے خلاف مزاحمتی جنگ اور عالمی انسدادِ فسطائیت جنگ میں فتح" کی 80ویں سالگرہ منائے گا۔
شی جن پنگ کے دورِ حکومت میں ایسے یادگاری مواقع کو خاص طور پر زیادہ نمایاں انداز میں منایا جارہا ہے۔

بعد ازاں وانگ ای کے ٹوکیو کے دورے اور چین-جاپان اعلیٰ سطحی اقتصادی بات چیت کے بعد چینی وزارتِ خارجہ کی ایک بریفنگ نے ماضی کے مسائل کی طرف دوبارہ رخ کرتے ہوئے کہا:"تاریخ سے متعلق درست فہم اور رویہ، دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپان کی بین الاقوامی برادری میں واپسی کے لیے ایک اہم شرط ہے۔"لہذا چینی حکومت کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو جاپان اب بھی اپنی ماضی کی حرکتوں کی وجہ سے "کال کوٹھری" میں ہے اور جنگ کے بعد اس کی ایشیا اور دنیا  حتیٰ کہ چین کی معاشی ترقی میں کی گئی خدمات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

ہندوستان کے لیے ایک درمیانی راہ

چین کا ہندوستان کے ساتھ رویہ ایک طرف امریکہ اوردوسری طرف یورپ اور جاپان کے ساتھ اپنائے گئے طریقوں کے بیچ بیچ کا ہے۔ جنوری میں ہندوستانی وزیر خارجہ وکرم مِسری اور ان کے چینی ہم منصب نائب وزیر خارجہ سن ویئی تونگ کے درمیان ملاقات کے بعد جاری کیے گئے چینی بیان میں دونوں ممالک کے درمیان "اعتماد بڑھانے، شکوک و شبہات دور کرنے اور اختلافات کو مناسب طریقے سے حل کرنے" کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ تاہم بیان کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر یہ ذمہ داری ہندوستان پر ڈالی گئی ہے، نہ کہ چین پر۔ بیان کے ایک اور حصے میں یہ کہا گیا کہ دوطرفہ تعلقات کو "اسٹریٹیجک اور طویل المدتی تناظر" میں اور "تعمیری رویے" کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہاں ایک بار پھر اس بات کا اشارہ دیا گیا کہ یہ دونوں صفات ہندوستان میں مفقود ہیں۔

بیجنگ کی جانب سے وکرم مِسری اور چینی وزیر خارجہ وانگ ای کے درمیان ملاقات پر جاری کیے گیے بیان  کا لہجہ کچھ زیادہ سخت تھا۔ اس میں کہا گیا تھا، " فریقین کو ایک دوسرے کے قریب ہونے کے موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے... [نہ کہ] باہمی بدگمانی، دوری اور ایک دوسرے کو تھکانے میں مصروف رہنا چاہیے۔" یہاں بھی "باہمی" (mutual) کا لفظ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ چین کو وہ رویہ اپنانے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو اصل میں ہندوستان کے طرزِ عمل کا ردعمل ہے، نہ کہ چین کی ذمہ داری۔

چین اور ہندوستان کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر جب چینی حکومت عوام کے درمیان رابطوں کو بڑھانے، بشمول براہِ راست پروازوں کی بحالی، کی بھرپور حمایت کر رہی ہے، تو ہندوستان پر بھی دباؤ ہے کہ وہ "عوامی رائے اور عوامی جذبے کی مثبت رہنمائی کرے۔"سادہ الفاظ میں اگر کہا جائے تو چین کی نظر میں "اسٹریٹجک اور طویل مدتی نقطہ نظر" کا مطلب ہے کہ ہندوستان سرحدی تنازعہ کو پس پشت ڈال دے، 2020 کے تناؤ سے پہلے کی صورت حال کی بحالی پر زور نہ دے اور یہ یقینی بنائے کہ ہندوستانی میڈیا اور تجزیہ نگار چین پر تنقید نہ کریں۔

ایک ترقی پذیراور تیز رفتار وولف وارئیر سفارت کاری

چین کی سخت گیر سفارتی حکمت عملیوں میں انداز اور دباؤ دونوں میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ چین اپنے اور امریکہ کے درمیان طاقت کے فرق سے آگاہ ہے مگر وہ یہ تاثر قائم رکھنا چاہتا ہے کہ وہ امریکی بالادستی کو چیلنج کرنے کی صلاحیت اور تیاری رکھتا ہے۔ چین امریکی اتحادیوں جیسے جاپان اور یورپی یونین پر سختی سے پیش آنے کا من بنارہا ہے کیوں کہ اس نے درست اندازہ لگایا ہے کہ ٹرمپ کے دور میں ان ممالک کے پاس بہت سارے آپشن نہیں ہیں اور چین کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھ کر اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

تاہم ہندوستان کے ساتھ معاملہ مختلف ہے کیوں کہ ہندوستان ایک ممکنہ چیلینجر ہے اور امریکہ کا قریبی شراکت دار بھی۔ساتھ ہی وہ چینی کاروباری اداروں کے لیے ایک اہم بازار بھی ہے۔چین کے حالیہ بیانات “وولف وارئیر” انداز کے سخت اور جارحانہ نہیں ہیں مگر پھر بھی یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہندوستان کو اس کی اوقات دکھائی جائے۔اسی کے ساتھ یہ چین اپنے باشندوں جیسے چینی کاروباری ادارے اور ماہرین کو بتانے کی کوشش ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو کیسے سمجھنا ہےاور اگر نئی دہلی بیجنگ کی توقعات پر پورا نہیں اترتا تو کیسے برتاؤ کرنا ہے۔


Original: Jabin T. Jacob. 2024. ‘The Moving Needle of China’s Wolf Warrior Diplomacy’. India’s World. 14 May.

Translated by Abu Zafar