
7 August 2025
تبت کا غیر یقینی مستقبل
دلائی لاما نے واضح کیا ہے کہ ان کی جانشینی کا نظام جاری رہے گا لیکن اُن کے جانشینی کے تعین پر چین اور ہندوستان کے درمیان جغرافیائی و سیاسی کشمکش کئی دہائیوں تک جاری رہ سکتی ہے۔
دھرم شالہ کے اس پہاڑی مقام پر اب گرد بیٹھنے لگی ہے جہاں معزز شخصیات، بزرگ روحانی اساتذہ (Rinpoche)، عام لاماؤں اور بے شمار زائرین کی موجودگی میں تبّت کے 14ویں دلائی لاما تینزن گیاتسو نے اپنی 90ویں سالگرہ منائی۔
دوجولائی کو دنیا بھر میں قابل احترام تبتی روحانی پیشوا نے ایک بار پھر واضح کیا کہ دلائی لاما کا نظام جانشینی جاری رہے گا۔ چند ماہ قبل، اپنی کتاب Voice for the Voiceless میں انہوں نے وضاحت کی تھی: "چوں کہ تناسخ (reincarnation) کا مقصد سابقہ دلائی لاما کے کام کو آگے بڑھانا ہوتا ہے، اس لیے نیا دلائی لاما آزاد دنیا (چین سے باہر) میں پیدا ہوگا۔"
تاہم نئے دلائی لاما کے تناسخ اور پھر سن شعور تک پہنچنے میں جو وقت درکار ہوگا اُس دوران اُن کی جانشینی چینی مداخلت کے خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔نومبر 2011 میں دیے گئے ایک بیان میں دلائی لاما نے دو امکانات کا ذکر کیا تھا: روایتی تناسخ (جس میں وہ تحریری ہدایات چھوڑجائیں گے کہ نئے دلائی لاما کو کیسے تلاش کیا جائے)،
یا دوسرا طریقہ 'ظہور' (emanation) جس میں اُن کا شعور اور علم ایک خاص طریقے سے منتخب کم عمر بچے میں منتقل کر دیا جائے گا۔
روحانی ظہور (emanation) کے امکان کو فی الحال ترک کر دیا گیا ہے، جو کہ افسوس ناک ہے کیوں کہ اس سے دلائی لاما کے تناسخ اور اُن کے سن شعور تک پہنچنے کے درمیان وقفہ کم ہو جاتا۔ ماضی میں چین نے اسی وقفے کا فائدہ اٹھا کر تبت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی تھی۔ دو جولائی کے بیان کے بعد چین اور ہندوستان کے درمیان بیان بازی کا سلسلہ شروع ہو گیا کیوں کہ چین جانشینی کے عمل اور اگلے دلائی لاما پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے میڈیا کو بتایا: "دلائی لاما کے تناسخ کے عمل کو ملکی شناخت اور مرکزی حکومت کی منظوری کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے، اور اس کا مذہبی روایات اور قوانین کے تابع ہونا ضروری ہے۔"
ہندستان میں اقلیتی امور کے وزیر کرن ریجیجو نے دھرم شالہ پہنچ کر سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ دلائی لاما کی جانشینی کا فیصلہ صرف قائم شدہ ادارے اور دلائی لاما خود کریں گے، "کوئی اور نہیں"۔ یہ واضح طور پر چین کی طرف اشارہ تھا۔ وزارت خارجہ نے بھی اپنا مؤقف واضح کیا:
"ہندوستانی حکومت عقیدہ اور مذہب کے عقائد اور رسوم سے متعلق امور پر کوئی موقف نہیں اپناتی اور نہ ہی اس پر بات کرتی ہے۔"کیا یہ بیجنگ کو ایک پیغام ہے—جو کہ ایک لامذہب ملک ہے—کہ وہ اس بحث سے دور رہے؟
ایسا لگتا ہے کہ چین کو خاص طور پر اس وقت تکلیف پہنچی جب ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایکس (X) پر اپنے پیغام میں کہا: "میں 1.4 ارب ہندوستانیوں کی جانب سے دلائی لاما کو ان کی 90ویں سالگرہ پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ وہ محبت، ہمدردی، صبر اور اخلاقی نظم و ضبط کی ایک مستقل علامت ہیں۔ ان کا پیغام تمام مذاہب کے درمیان احترام اور تحسین کا باعث بنا ہے۔ ہم ان کی اچھی صحت اور دراز عمر کے لیے دعا گو ہیں۔"
چین کو یہ اچھا نہیں لگا۔ ماو نِنگ نے ایک میڈیا بریفنگ میں کہا: "چودھویں دلائی لاما سیاسی طور پر جلاوطن ہیں اور وہ طویل عرصے سے علیحدگی پسند سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ وہ مذہب کی آڑ میں شی زانگ (Xizang) کو چین سے الگ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔"(واضح رہے کہ چین نے سرکاری طور پر تبت کا نام شی زانگ کردیا ہے)
انہوں نے مزید کہا:"ہندوستان کو چاہیے کہ وہ محتاط رویہ اختیار کرے اور اس معاملے کو چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے طور پر استعمال کرنا بند کرے۔"
چین کی بدھ مت ایسوسی ایشن نے بھی ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا:"مرکزی حکومت کو دلائی لاما کے تناسخ کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے اور اس فیصلہ کو چودھویں دلائی لاما کی ذاتی صوابدید پر کسی صورت نہیں چھوڑا جاسکتا۔"
ہمیں مستقبل میں ایسے مزید متضاد بیانات ضرور دیکھنے کو ملیں گے ۔
تبتی اقلیت اور اقتدار کے درمیان خلا
اگرچہ دلائی لاما نے حال ہی میں کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ وہ 130 برس کی عمر تک جئیں گے لیکن مستقبل غیر یقینی ہے ۔ایک طرف چین اُن کی "واپسی" کے لیے سرگرداں ہے—خاص طور پر 2007 میں جاری کیے گئے ضابطے "تبتی بدھ مت میں زندہ بودھوں کے تناسخ کے نظم و نسق کے لیے قواعد و ضوابط"کے ذریعے۔اس کے ساتھ ساتھ چین نے اپنا پنچن لاما اور دیگر "بلند مرتبہ" لاماؤں کو فروغ دینا شروع کر رکھا ہے، جنہیں وہ دھرم شالہ کے خلاف اکثر اپنی پروپیگنڈا جنگ میں استعمال کرتا ہے۔
تبتی ریاست کی تاریخ میں تناسخ کے ذریعے حکمرانی ہمیشہ ایک بڑی کمزوری رہی ہے، کیوں کہ اس نظام کی وجہ سے تبتی قوم تقریباً بیس برس تک مؤثر قیادت سے محروم رہتی ہے۔اگرچہ دلائی لاما نے 2011 سے اپنے سیاسی اور انتظامی اختیارات ایک منتخب صدر (جسے سیکیونگ کہا جاتا ہے) کو سونپ دیے ہیں، تاہم ان کی موجودگی اب بھی تین روایتی تبتی صوبوں (او-تسانگ، کھام اور اَمدو) کے تبتیوں، تبتی بدھ مت کے مختلف مکاتبِ فکراور قدیم بون مذہب کے ان ماننے والوں کے لیے سب سے بڑی وحدت کی علامت ہے، جو آج بھی اسے اپنائے ہوئے ہیں۔
تبت کی تاریخ میں ایسے ادوار — جنہیں برطانوی مؤرخین عبوری دور یا قیادت کا خلا والا دور کہتے تھے، سیاسی، دنیاوی اور روحانی قیادت کی کمی کا باعث رہے ہیں جب کوئی بڑا فیصلہ لینا ممکن نہیں ہوتا اور اس کے اثرات آج بھی واضح ہیں۔ اسے ایک جہاز سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو بغیر کپتان کے سمندر میں چل رہا ہو۔ کمیونسٹ حکام پہلے ہی پارٹی قوانین کے تحت دلائی لاما کی 'واپسی' کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ لہذا پندرہویں دلائی لاما کو پہلے کمیونسٹ ہونا پڑے گا پھر مذہبی رہنما۔ مزید یہ کہ انہیں تبت میں مستقل قیام کی اجازت نہیں ہو گی، البتہ وقتاً فوقتاً دورے کرسکتے ہیں۔
جلاوطنی کے دوران جب قیادت کا عبوری دور (interregnum) شروع ہوگا تو ایک فرد پر مشتمل ریجنسی یا کونسل (مجلسِ نیابت) کی ذمہ داریاں محض پندرہویں دلائی لاما کی فلاح و تعلیم سے متعلق مذہبی امور کی نگرانی تک محدود ہوں گی۔ تاہم ان کے اقدامات ہندوستان کی سلامتی پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں، خاص طور پر شمالی سرحد کے ساتھ بسنے والے دلائی لاما کے دس لاکھ ہندوستانی پیروکاروں کے پیش نظر۔
اگر نو منتخب (تناسخ کے ذریعے ظہور پانے والے) تبتی رہنما ہندوستان واپس آتے ہیں—خواہ ان کا تعلق لداخ، کنّور، اسپیتی، سکم یا اروناچل پردیش سے ہو—تو عوام کی جانب سے ان کا پرتپاک خیرمقدم یقینی ہے۔اور امید کی جاتی ہے کہ حکومت بھی ان کا خیرمقدم کرے گی، چاہے وہ چین کو مشتعل نہ کرنے کے لیے عوامی طور پر خاموشی اختیار کرے۔ تاہم ریجنسی (یعنی عبوری نیابت) کے تصور سے کئی خطرات وابستہ ہیں۔ ماضی میں بہت سے نائب (ریجنٹس) تبت کو متحد رکھنے میں ناکام رہے۔ بلکہ 1947 میں دو نائبین کے درمیان داخلی کشمکش کے باعث تبت خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔
انیسویں صدی میں مانچو حکمرانوں نے ایک سازشی طریقہ ایجاد کیا اور دلائی لاما کے سن شعور تک پہنچنے سے پہلے ان کی پراسرار موت واقع ہوگئی۔ اس سے چینی بادشاہ کے سفیر کو تبت میں اپنی مرضی مسلط کرنے کا موقع مل گیا۔ لہذا اس بار یہ طے ہے کہ چین اس معاملے کو ہرگز ہاتھ سے نہیں جانے دے گا، کیوں کہ تبت پر 75 سالہ زبردستی قبضے کا قانونی جواز داؤ پر لگا ہوا ہے۔
Original: Claude Arpi. 2025. ‘Uncertain years ahead for Tibet’. 360info. 11 July.
Translated by Abu Zafar
Share this on: