25 June 2024
وادئ شکسگام میں نئی چینی سڑک: ایک مختصر تاریخی پس منظ
اس وقت ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں اکثر انسانی ذہانت کوبے محل بناکر ہر چیز آسمان سے دیکھی جا سکتی ہے ۔تازہ ترین معاملہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں چین کے ذریعہ غیر قانونی طور پر سڑک کی تعمیر کا ہے۔ پہلے ہندوستان کے سیاچن گلیشیئر کے قریب سے گزرنے والی سڑک کو دریافت کرنے میں مہینوں یا سال لگ جاتے تھے۔ نئی سڑک کی سیٹلائٹ تصاویر بہت جلد ہندوستانی اور غیر ملکی میڈیا پر چھا گئیں۔
وادئ شکسگام میں واقع یہ سڑک ہائی وے G219 (جسے اقصائےچن روڈ بھی کہا جاتا ہے) کی ایک شاخ ہے اور انڈیا ٹوڈے کے مطابق یہ "ہندوستان کے انتہائی شمالی مقام سیاچن گلیشیئر میں اندرا کول سے تقریباً 50 کلومیٹر شمال میں ایک جگہ پر پہاڑوں میں غائب ہو جاتی ہے"۔ یہ سڑک جو درہ اگل سے گزرتی ہے، کہ تعمیر (1947 سے پہلے شنچیانگ کے ساتھ ہندوستان کی سرحد) کے بارے میں سب سے پہلے سوشل میڈیا سائٹ ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر ہند تبت کی سرحد کے ایک مبصر 'نیچر ڈیسائی' نے آواز اٹھائی تھی۔
ٹام حسین نامی ایک پاکستانی صحافی جو ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے لیے لکھتے ہیں، نے اس عمل پر چینیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے لکھا: "پاکستان چین کے ساتھ نئی زمینی سرحدی کراسنگ تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس سے لداخ اور کشمیر کے باقی علاقوں میں ہندوستانی افواج کے خلاف اتحادیوں کی فوجی مداخلت کو ممکنہ طور پر فروغ ملے گا۔ "
ہانگ کانگ کےاس اخبار کا دعویٰ ہے کہ گلگت بلتستان کے اس علاقے سے ، جو اس وقت پاکستان کے کنٹرول میں ہے، شنچیانگ کو کشمیر سے ملانے والے ایک نئے ٹرانزٹ اور تجارتی راستے کی تجویز پیش کی گئی ہے "[جو] خطے میں ہندوستانی افواج کے خلاف بیجنگ اور اسلام آباد کی فوجی مداخلت میں اضافہ کرے گا"۔
ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے فوری طور پر زور دے کر کہا کہ: "شکسگام وادی ہندوستان کا حصہ ہے۔ ہم نے 1963 کے نام نہاد چین- پاکستان سرحدی معاہدے کو کبھی تسلیم نہیں کیا، جس کے ذریعہ پاکستان نے غیر قانونی طور پر اس علاقے کو چین کے حوالے کرنے کی کوشش کی تھی… ہم نے زمینی حقائق کو تبدیل کرنے کی غیر قانونی کوششوں کے خلاف چین کے ساتھ اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔ ہم اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مزید ضروری اقدامات کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔‘‘
تاہم وادی شکسگام کی تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے۔
مغربی طاقتوں کا کردار
اکتوبر 1962 میں جب چین نے شمالی ہندوستان پر حملہ کیا تو دہلی کے پاس مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اور برطانیہ سے مدد مانگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ شروع شروع میں امریکہ نے ہندوستان کی حمایت میں بڑی خوش دلی کا مظاہر ہ کیا تاکہ وہ اس ہندوستان جو اس وقت تک' غیر جانب دار' تھا سے کچھ فائدہ اٹھاسکے۔ اس 'غیر جانبداری' کا مطلب اکثر ماسکو کے ساتھ کھڑے ہونا ہوتا ہے جب کہ سیٹو(SEATO) اور بغداد معاہدوں کا رکن پاکستان ہمیشہ مغرب کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔
نومبر 1962 کے آخر میں واشنگٹن نے دہلی کی حمایت کا اعلان کیا لیکن ہندوستان کی مدد کرنے کے بجائے برطانیہ اور امریکہ نے اپنے اتحادی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنازعہ کشمیر کو حل کرنے کی کوشش کی۔ 22 نومبر کو امریکی انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ ایورل ہیریمن اور برطانوی دولت مشترکہ کے سیکرٹری ڈنکن سینڈیز نے نئی دہلی اور اسلام آباد کا دورہ کیا تاکہ ان دشمن بھائیوں کو اس بات پر آمادہ کیا جا سکے کہ آپسی اختلافات کو ختم کرکے 15 سال سے چل رہے اس تنازعہ کا حل نکالا جائے۔ ہیریمن اور سینڈیز نے بالآخر ایک مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیا اور دونوں ممالک سے بات چیت دوبارہ شروع کرنے کو کہا۔
اگرچہ ہندوستان انتہائی کمزور حالت میں تھا اور ایسے حالات میں ہونے والے مذاکرات سے مثبت نتائج حاصل کرنے کے امکان کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات تھے لیکن پھر بھی نہرو نے اسےقبول کر لیا۔
22 دسمبر 1962 کو نہرو نے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو لکھاکہ: ’’میں مختصراً ہند وپاک کے درمیان مسائل، خاص طور پر کشمیر کا ذکر کروں گا۔ اگلےچار دن میں سردار سورن سنگھ ان مسائل پر بات چیت کے لیے راولپنڈی جارہے ایک وفد کی قیادت کریں گے۔ ہمیں احساس ہے کہ اس طرح کی کانفرنس کے لیے یہ مناسب وقت نہیں ہے کیونکہ پاکستانی میڈیا اور سرکردہ سیاستدانوں کی ہندوستان کے خلاف وحشیانہ گالیوں کی وجہ سے ماحول خراب ہے۔ بہر حال ہم نے وہاں جانے اور کسی معقول تصفیے پر پہنچنے کی پوری کوشش کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ ہم کسی بھی ایسی چیز سے اتفاق نہیں کر سکتے جو ہمارے بنیادی اصولوں کے خلاف ہو اور آخر کار ہندو پاک دوستی کو نقصان پہنچائے۔
بہر حال دونوں وفود نے چھ ملاقاتیں کیں لیکن ان سےکوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔ پہلی بات چیت راولپنڈی میں ہوئی جہاں دو وزرائے خارجہ سورن سنگھ اور ذوالفقار علی بھٹو مسئلے کی تاریخی نوعیت اور اپنے اپنے نقطہ نظر کے اعادہ تک محدود رہے۔
تاہم بات چیت جلد ہی ٹریک سے ہٹ گئی: پاکستان کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ چین کے ساتھ اپنے شمالی سرحدی مسئلے (بشمول شنچیانگ) پر اصولی طور پر ایک معاہدے پر پہنچ گئی ہے۔ہند- چین جنگ کے خاتمے کے بمشکل ایک ماہ بعد پاکستان چین کو ہندوستان کی سرزمین کا ایک ٹکڑا دینے کے لیے تیار تھا (اگست 1948 کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق)۔
چین اور پاکستان کے درمیان اس معاہدے کا مقصد واضح طور پر کشمیر مذاکرات کو پٹری سے اتارنا تھا۔
یہ واقعی حیران کن تھا کہ امریکہ اور مغربی دنیا کے اتحادی پاکستان نے یہ اعلان کرنے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیا۔ یہ اس بات کا ایک اور ثبوت بھی تھا کہ پاکستان کو دہلی کے ساتھ مذاکرات سے کچھ بھی توقع نہیں تھی حالانکہ وہ اس کے سرپرست امریکہ کی طرف سے شروع کیے گئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان کی شمالی سرحدوں کے لیے امریکہ کی طرف سے ہندوستان کو جس حمایت کی توقع تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔
لیکن نہروپھر بھی ویسے ہی پر امید رہے، یا شاید شتر مرغ کی طرح انہوں نے کچھ نہ دیکھنا پسند کیا ہو۔ وزرائے اعلیٰ کو لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا کہ: "جہاں تک ہمارے مسائل کا تعلق ہے تو بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا سوائے اس کے کہ خوف اور بداعتمادی کی وجہ سے جو رکاوٹیں ان کے حل میں مانع تھیں ان میں کچھ حد تک کمی آئی ہے۔"
مذاکرات بغیر کسی ٹھوس نتیجے کے دہلی میں 16 سے 19 جنوری اور کراچی میں 8 سے 11 فروری کے درمیان جاری رہے۔ پاکستان صرف کشمیر کے لیے رائے شماری میں دلچسپی رکھتا تھا، لیکن ہندوستان پاکستان کے زیر قبضہ علاقوں سے پہلے فوج کو ہٹانے پر مصر رہا۔
معاہدے پر بحث
25 فروری 1963 کو پارلیمنٹ میں حکومت سے سوال کیا گیا کہ کیا چین -پاکستان سرحدی معاہدے کے حوالے سے دہلی کی طرف سے پاکستان کو بھیجے گئے احتجاجی نوٹ پر کوئی ردعمل آیا؟ اگر ہاں، تو اس میں کیا کہاگیا ہے؛ اور کیا معاہدے کا متن دستیاب ہے۔
وزارت خارجہ کے نائب وزیر دنیش سنگھ کا جواب کچھ یوں تھا: "(a) ہمارے احتجاجی نوٹ کا ابھی تک کوئی رسمی جواب نہیں ملا ہے۔ (b) موجود نہیں ہے۔ (c) نہیں جناب۔
اس وقت دہلی کے پاس 1963 کے معاہدے کی کاپی بھی نہیں تھی۔
بعد میں اسی دن کانگریس کے ہریش چندر ماتھر نے حکومت کے رد عمل کے بارے میں دوبارہ سوال کیا۔ نہرو نے جواب دیا: "ظاہر ہےحکومت ہند کا ردعمل اس کی حمایت نہیں کرتا ہے۔" اس کے علاوہ کوئی اور تفصیل موجود نہیں تھی۔
چین- پاکستان معاہدے پر 2 مارچ 1963 کو دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ بھٹو اور چھن ایی نے دستخط کیا ۔ دونوں فریقوں کے مطابق اس معاہدے کا مقصد "اچھے ہمسایہ اور دوستانہ تعلقات کا ارتقاء اور ایشیا اور دنیا میں امن کے تحفظ کو فروغ دینا تھا۔"
معاہدے کی دفعہ ایک میں یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ کبھی بھی سرحد کی باقاعدہ حد بندی نہیں کی گئی تھی اور دونوں ممالک اس کی حدبندی "روایتی اور عملی سرحد" کی بنیاد پر کرنا چاہتے ہیں۔
چونکہ پاکستانی اور چینی نقشے بالکل ایک جیسے نہیں تھے، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ زمین پر موجود ٹپوگرافیکل خصوصیات فیصلہ کن ہوں گی۔
واضح رہے کہ سرحد کی اس تفصیل میں معاہدے میں درہ قراقرم کا ذکر سرحد کی مشرقی حد کے طور پر کیا گیا ہے۔ عملاَ اس سے یہ لگتا ہے کہ اس وقت سیاچن گلیشیئر پاکستان کے قبضے میں تھا۔لیکن حقیقتاَ ً ایسا نہیں تھا۔ دراصل سیاچن گلیشیئرجس کی طویل عرصے سے حد بندی نہیں کی گئی تھی، کبھی بھی پاکستان کے قبضے میں نہیں رہا، جب کہ 1984 میں کہیں جاکر ہندوستان نے اس پر قبضہ کیا۔
دفعہ 6
زیادہ دلچسپ معاہدہ کی دفعہ 6 ہے، جس میں پاکستان اور چین نےاس بات پر اتفاق کیا تھاکہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنازعہ کشمیر کے حل کے بعد "متعلقہ خودمختار اتھارٹی چینی حکومت کے ساتھ سرحد کے معاملے پر مذاکرات دوبارہ شروع کرے گی تاکہ موجودہ معاہدہ کی جگہ ایک باضابطہ سرحدی معاہدے پر دستخط کیا جاسکے۔"
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر 1963 کے معاہدے کو ’قانونی‘ سمجھ لیا جائے، جو کہ نہیں ہے، تب بھی چین آج جس علاقہ میں سڑک بنا رہا ہے وہ صرف عارضی طور پر چین کے پاس ہے۔ یہ واضح طور پر ہندوستان کے لداخ کے ڈیپسانگ اور ڈیمچوک میں جھکنے سے انکار کرنے کے بدلے میں ایک اشتعال انگیزی ہے۔
نیا انفراسٹرکچر خطے میں ہندوستان کے ساتھ نئے تنازع کی صورت میں چین کو زبردست فائدہ دے سکتا ہے۔
نئی سڑکوں کے نقشے شائع ہونے کے بعد ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے دوبارہ زور دے کر کہا کہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے۔ انہوں نے ہندوستانی پارلیمنٹ کی اس قرارداد کا بھی ذکر کیاجس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر ملک کا حصہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا " مستقبل میں کیا ہوگا، یہ بتانا بہت مشکل ہے۔ لیکن میں لوگوں سے ایک بات ہمیشہ کہتا ہوں: آج ایک بار پھر پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر ہندوستان کے لوگوں کے شعور کا حصہ ہے۔"
اس دوران گلگت بلتستان کے عوام نے پاکستانی ریاست کے خلاف بغاوت شروع کر دی ہے۔ لہذاکھیل یقینی طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔
خلاصہ
ہندوستان کو جلد ہی دوبارہ احتجاج کا موقع ملے گا۔ پاکستان اور چین عطا آباد جھیل سے بچنے کے لیے قراقرم ہائی وے کو 'دوبارہ تبدیل کرنے' کا ارادہ رکھتے ہیں، جہاں سے مٹی کے تودے گرتے رہتےہیں۔
کلاڈ ارپی مرکز برائے ہمالین اسٹڈیز، شیو نادر انسٹی ٹیوشن آف ایمننس کے ممتاز فیلو ہیں۔ ان کا اصل مضمون انگریزی میں ہےجس کا حوالہ درج ذیل ہے۔
Original: Claude Arpi. 2023.‘New Chinese Road in Shaksgam Valley: A Brief Historical Background’.Centre of Excellence for Himalayan Studies, Shiv Nadar Institution of Eminence. Commentary. 10 June.
Translated by Abu Zafar
اس مضمون کا ترجمہ ابوظفر نے کیا ہے۔
Share this on: