...

7 March 2025

چین کا ہم آہنگی پر مبنی بیانیہ : پس پردہ حقائق



اس سال کے آغاز میں چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نے بیجنگ کی چائنا فارن افیئرز یونیورسٹی میں "انسانیت کے مشترکہ مستقبل پر مبنی کمیونٹی کی تعمیر کے تحقیقی مرکز" کا افتتاح کیا۔یہ اپنی نوعیت کا پہلا مرکز نہیں ہے۔ نومبر 2019 میں بیجنگ کی ایک اور یونیورسٹی نے "کمیونٹی ود شیئرڈ فیوچر انسٹی ٹیوٹ" کے قیام کا اعلان کیا تھا اور اگلے ہی سال اسلام آباد میں "پاکستان ریسرچ سینٹر فار آ کمیونٹی ود شیئرڈ فیوچر" قائم کیاگیا۔

اگرچہ ان مراکز کے عنوانات بلند بانگ اور انسان دوستی پر مبنی ہیں، لیکن چین کی کمیونسٹ پارٹی اورریاست کے  مفادات اور ان سے جنم لینے والا عالمی نقطۂ نظر اُس قسم کی عالمی برادری کے تصور کی گنجائش نہیں رکھتا جس کی بیجنگ حمایت کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔

سال 2017 میں ڈاووس میں  منعقد ورلڈ اکنامک فورم میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے جنرل سیکریٹری اور چینی صدر شی جن پنگ نے ان مسائل کی تفصیل بیان کی  تھی جو "عالمی معیشت کی نمو، حکمرانی اور ترقیاتی ماڈلز میں پائے جاتے ہیں اور جن کو حل کرنا ضروری ہے"۔ لیکن چینیوں کے نزدیک ان مسائل کو عالمی نوعیت کا قرار دینا دراصل ان کے عالمی سیاست کی سمت کے بارے میں مخصوص خدشات کو چھپانے کی کوشش ہے ۔ جیسے کہ امریکہ کی طرف سے مسلط کردہ تجارتی جنگ کے باعث چینی معیشت پر دباؤ، لبرل جمہوری ممالک کی طرف سے ان کے آمرانہ نظامِ حکومت کو چیلنج اور اُن متبادل ترقیاتی ماڈلز سے پیدا ہونے والا مقابلہ جو ریاستی کنٹرول یا کسی غالب سیاسی جماعت کی معیشت اور قومی وسائل پر اجارہ داری کو ترجیح نہیں دیتا۔یہ چیلنجز آج بھی برقرار ہیں اور "مشترکہ مستقبل پر مبنی عالمی برادری" کی چینی اپیل، ان اندرونی غیر یقینی کی کیفیت کو چھپانے کی ایک کوشش ہے۔

بیرونی سطح پر، اگرچہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’ایسے شراکتی تعلقات قائم کیے جائیں جن میں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ برابری کی بنیاد پر پیش آئیں‘ اور یہ’بین تہذیبی تبادلے ہم آہنگی، شمولیت اور اختلافات کے احترام کو فروغ دیں‘، لیکن عملی طور پر کمیونسٹ پارٹی کے لیے ایسی شمولیت یا اختلافات کو برداشت کرنا ناممکن ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ ایسا کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ چین کے اندر بھی شمولیت اور اختلافِ رائے کو قبول کرے اور منطقی طور پر داخلی سطح پر سیاسی مقابلے کی اجازت دے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔

معاملہ صرف الفاظ کا نہیں ہے

چینی کمیونسٹ پارٹی اور ریاست "مشترکہ مستقبل کی حامل برادری" جیسے تصورات کو فروغ اس لیے دے سکتی ہے کیوں کہ اسے یقین ہے کہ غیرملکی لوگ چینی سیاسی نظام کی اصل حقیقت کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بجائے، صرف اس بیان کو تسلیم کر لیں گے جو چین خود اپنے نظام کے بارے میں پیش کرتا ہے۔ اس تصور کا ترجمہ بعض اوقات "مشترکہ مقدر والی کمیونٹی" بھی کیا جاتا ہے۔

ایسا ہی کچھ شی چن پنگ سے قبل سابق صدر ہو جن تاؤ کے دور میں پیش کیے گئے‘harmonious world’ (ہم آہنگی والی دنیا) کے تصور کے دوران ہوا تھا۔ چینی خارجہ پالیسی میں استعمال ہونے والے الفاظ اور اصطلاحات کو اگر صرف انگریزی یا دیگر زبانوں کے ترجمے کی بنیاد پر سمجھا جائے تو ان کی غلط تشریح ہو سکتی ہے۔ انگریزی میں harmony کا مطلب ہے مختلف اجزاء کا مل کر بغیر کسی اونچ نیچ کے کام کرنا۔ لیکن چینی زبان میں اس کا مفہوم بالکل برعکس ہے ۔ چینی تصورمیں درجہ بندی (hierarchy) لازمی ہے، کیوں کہ  ان کے نزدیک ترتیب یا نظم صرف درجہ بندی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ سوچ کنفیوشس کی تعلیمات سے ماخوذ ہے، جس کے مطابق معاشرتی استحکام کے لیے پانچ بنیادی رشتے – حکمران اور رعایا، باپ بیٹا اور بھائی، شوہر اور بیوی اور دوستوں کے درمیان  درجات  ہوتے ہیں، جن میں کم عمر یا کم مرتبہ فرد،بڑے یا اعلیٰ فرد کے ماتحت ہوتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں گرچہ  چین "ہم آہنگ والی دنیا" کی بات کرتا ہے  لیکن وہ دراصل ایسی دنیا کا تصور پیش کر رہا ہوتا ہے جہاں ممالک کے درمیان تعلقات لازماً غیر مساوی اور درجہ بندی پر مبنی ہوں گے۔ اور فطری طور پر چین کو یہ مقام حاصل ہوگا کہ وہ ممالک کی درجہ بندی کرے اور اپنا حکم صادرکرے۔ دوسرے الفاظ میں اس عمل میں چین کو برتری حاصل ہوگی۔ جو لوگ چین کی داخلی سیاست پر نظر رکھتے ہیں ان کے لیے یہ بالکل واضح بات ہے۔ ’ہم آہنگی والی دنیا‘ کے تصور سے پہلے ’ہم آہنگی والے معاشرہ‘ کا نظریہ پیش کیا گیا تھا ۔ یہ بھی اگرچہ قدیم چینی فلسفے سے ماخوذ تھا لیکن اس کا جدید استعمال اس مقصد کے لیے کیا گیا کہ معاشرے کو اندرونی خلفشار ، خاص طور پر نسلی اختلافات اور کمیونسٹ پارٹی کی بالادستی کو چیلنج کرنے سے پاک رکھا جائے۔ ہو جن تاؤ کے دور میں مزدوروں کے احتجاج، ماحولیاتی مظاہرے اور نسلی فسادات، خصوصاً 2008 میں تبت اور اگلے سال شنچیانگ میں ہونے والے واقعات، پارٹی کے لیے مشکل  وقت ثابت ہوئے تھے۔

کمیونسٹ پارٹی نے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جبر پر مبنی مختلف حکمتِ عملیاں اپنائیں تھیں جن میں  پرتشدد کریک ڈاؤن، معلومات پر پابندی، بیانیے کی تشکیل اور پروپیگنڈا شامل تھے۔دریں اثنا’غیر ملکی ہاتھ‘ کو موردِ الزام ٹھہرانا بالخصوص نسلی فسادات میں پارٹی کے بیانیے کا حصہ رہا تاکہ ان پر قابو پایا جاسکے۔ اور یہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ چینی خارجہ پالیسی ہمیشہ داخلی سیاسی مفادات سے جڑی ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ پہلو صرف چین تک محدود نہیں ہے مگر چین کے لیے یہ خاص طور پر اہم اور نتائج خیز ہے۔ یہ تصور کرنا غیر منطقی ہوگا کہ ایک ایسی سیاسی جماعت، جو ہر صورت اقتدار میں رہنے کے عزم سے وابستہ ہو جیسا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی ہے، وہ اپنی خارجہ پالیسی کے تصورات اور اہداف کو نظام کے مفادات کے فروغ کے لیے نہ ڈھالے۔ درحقیقت چینی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی سرحدوں سے باہر اپنے اثر و رسوخ کو فعال طور پر وسعت دے تاکہ داخلی سطح پر اپنے استحکام کو یقینی بنا سکے۔

عالمی مقبولیت پسندی

چین اپنی خارجہ پالیسی میں دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے ایسا درجہ بندی پر مبنی ڈھانچہ اپنانے کا خواہاں ہے جس میں اسے بالادستی حاصل ہو۔ چین کی جانب سے سخاوت کے ساتھ دی جانے والی امداد، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، ٹیلی کمیونیکیشن ، ڈیجیٹل روابط اور سیاسی حمایت کی وجہ سے ممالک اس درجہ بندی کو قبول کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ہوسکتا ہےیہ  ممالک اس درجہ بندی کو محض ایک عارضی سیاسی ضرورت سمجھیں لیکن خود چین کی کمیونسٹ حکومت کے لیے اس کو قبول کیے جانےکی اہمیت کہیں زیادہ ہے کیوں کہ اس سے اندرون ملک یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی چین کو دوبارہ عظمت کی راہ پر گامزن کر رہی ہے، اور یوں حکومت کے جواز کو تقویت ملتی ہے۔

یقیناًچین کے عالمی اقدامات اور 'مشترکہ مستقبل کے حامل اتحاد'کی اپیل کو بین الاقوامی مقبولیت پسندی (international populism) کی ایک صورت سمجھا جا سکتا ہے۔ بیجنگ کا مقصد یہ ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے خواص اور عوام دونوں سے براہِ راست مخاطب ہو کر ان کی حمایت حاصل کرے، اور یہ تاثر دے کہ وہ ان کے مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ اس 'کمیونٹی' کا تصور اس لیے پیش کیا گیا ہے تاکہ ایک طرف خود غرض، بدعنوان اور طاقت کے خواہاں مغرب کو اور دوسری طرف ترقی پذیر دنیا کے مفادات کا خیال رکھنے والے ایک بے غرض چین کو ایک دوسرے کے متضاد کرداروں میں پیش کیا جا سکے۔

چاہے وہ چین کی فراخ دلی اور دیگر ممالک کے مؤقف کو اہمیت دینے کا کتنا ہی مظاہرہ کریں، چینی رہنما یہ دعویٰ ضرور کرتے ہیں کہ انہیں ان ممالک کی حقیقی ضروریات خود ان ممالک سے بہتر طور پر معلوم ہیں۔درحقیقت "مشترکہ مستقبل کے حامل اتحاد"  کا بیانیہ مختلف ممالک کے مفادات میں پائے جانے والے تنوع کو تسلیم نہیں کرتا، حالانکہ چینی سفارت کار اور پارٹی ادارے انہی ممالک کے داخلی اختلافات سے چینی مفادات کے حق میں فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں لگاتے۔ چین کا عالمی برادری سے متعلق بیانیہ محض ایک اور طریقہ ہے جس کے ذریعے وہ بیرونی دنیا میں اپنی غیر معمولی حیثیت (چینی انفرادیت) کا تصور اجاگر کرنا چاہتا ہے۔

شرائط کے ساتھ

" مشترکہ مستقبل کے حامل اتحاد" کا تصور دراصل "ہم آہنگی والی دنیا" (harmonious world)کے سابق بیانیے کا ایک زیادہ پُراعتماد اور جدید اظہار ہے جسے شی جن پنگ کی وسعت پذیر عالمی امنگوں کے مطابق ڈھالا گیا ہے۔یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ یہ چینی خصوصیات کی حامل بلاک سازی(bloc-building) کی ایک شکل ہے ۔ یہ ایک ایسا ماڈل ہے جو کم لاگت پر مبنی، قائل کرنے کی حکمت عملی کو ترجیح دیتا ہے اور فوجی اتحادوں پر کم انحصار کرتا ہے، برخلاف سرد جنگ کے اس ماڈل کے جو نہایت مہنگا ثابت ہوا اور آخرکار سوویت یونین کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔

تاہم یہ واضح رہنا چاہیے کہ چینی خارجہ پالیسی اور اس سے وابستہ بیانیے اس طور پر تشکیل دیے گئے ہیں کہ شراکت دار ممالک سے نہ صرف تعاون لیا جائے، بلکہ چین کے عالمی عروج، معاشی ترقی اور اقوامِ عالم میں اس کی بالادست حیثیت کو قبول کرنے کا مضبوط سیاسی عزم بھی حاصل کیا جائے۔ اس وقت کئی ممالک چینی اثر و رسوخ کو امریکی، یورپی یا ہندوستانی بالادستی پر ترجیح دے رہے ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ مغرب یا ہندوستان کے اقدامات کو اُن اقدار کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے جن کے وہ خود علمبردار ہیں۔جب کہ چین پر ایسی کسی تنقید کی گنجائش نہیں ہے۔

چین کی دو طرفہ سفارتی زبان خوش نما اور پر اثر نظر آتی ہے، لیکن یہ بیانات اکثر ایسے انداز میں ترتیب دیے جاتے ہیں کہ چین بعد میں ان کی تعبیر کو اپنے حساب سے بدل سکے۔  چین کی میزبانی میں ہونے والی دو طرفہ ملاقاتیں اور کثیرالجہتی اجلاس نمائشی رنگ لیے ہوتے ہیں  اور انہیں اس شاہی چینی دربار سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جہاں غیر ملکی مہمانوں کو بلایا جاتا تھا اوراس میں چین اپنی عالمی برتری کھل کر مظاہرہ کرتا تھا۔چاہے غیر ملکی رہنما اس بات کو سمجھیں یا نہ سمجھیں، وہ اس چینی اسٹیج ڈرامے میں محض اداکار بن کر رہ جاتے ہیں۔

نئی دہلی بھی بھاری بھرکم اصطلاحات اور دلکش نعروں کے وضع کرنے میں ماہر ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ چین کی طرح اس کے پاس نہ تو وہ معاشی طاقت ہے اور نہ ہی سفارتی اثر و رسوخ، جو ان تصورات کو عملی جامہ پہنا سکے۔ مسئلے کا حل یہ نہیں کہ چین کو بیانیے کے میدان میں کھلی چھوٹ دے دی جائے بلکہ ہندوستان کو چاہیے کہ وہ ایک زیادہ مؤثر اور عالمی سطح پر قابلِ قبول بیانیہ تیار کرے اور اس بیانیے کو قابلِ اعتماد بنانے کے لیے اپنی صلاحیتوں میں سرمایہ کاری کرے۔


Original: Jabin T. Jacob. 2024. ‘Harmony means hierarchy: Lifting the veil on China’s global community rhetoric’. India’s World. 6 March.

Translated by Abu Zafar