14 December 2025
چین کے عالمی منصوبے اور عالمی اداروں کے ممکنہ زوال کی تیاری
چین نے تیانجِن میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران گلوبل گورننس انیشیےٹیو نام سے ایک نئے عالمی منصوبہ کا اعلان کیاہے۔ یہ پہلے سے جاری تین عالمی اقدامات یعنی ترقی، سلامتی اور 'تمدّن' سے متعلق اقدامات میں ایک نئی کڑی کا اضافہ ہے۔ یہ تمام اقدامات اس بڑھتے ہوئے چینی اعتماد کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس کے پیش کردہ نظریات کو عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہو گی، خاص طور پر اس انتشار کے ماحول میں جو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے پیدا ہوا ہے۔ ساتھ ہی یہرجحان اس وسیع تاثر سے بھی متعلق ہےجسے چین کے ترجمان اور ذرائع نے بھرپور انداز میں فروغ دیا ہے کہ امریکہ اور مغربی دنیا زوال کے آخری مرحلے میں ہے۔
یہ نئی پہل لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے گی، خاص طور پر اس لیے کہ یہ اقوام متحدہ اورورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی مسلسل اہمیت پر اٹھنے والے سوالوں کے درمیان سامنے آئی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ ان اداروں میں مسائل موجود ہیں۔ ان مسائل میں سے کچھ امریکہ اور چین دونوں کی وجہ سے ہیں، مگر فی الحال امریکہ ہی ساری تنقیدوں کا نشانہ بن رہا ہے جب کہ چین کے "عالمی اقدامات" یہ تاثر پیدا کر رہے ہیں کہ وہ کسی بھی مسئلے کا موجب نہیں ہے بلکہ ان کا حل تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
چین کے نئے گلوبل گورننس انیشی ایٹو کے دستاویز میں چین نے خود کو "امن عالم کا مضبوط ستون، عالمی ترقی کا معاون، بین الاقوامی نظام کا محافظ اور عوامی مفادات فراہم کرنے والا" ملک قرار دیا ہے۔ اس طرح کے چینی دعوے ہندوستان کے لوگوں کے لیے مذاق ہو سکتے ہیں، مگر گلوبل ساؤتھ کے ممالک وہ جنہوں نے چین کو امریکی، یورپی یا ہندوستانی اداروں کی ناکامیوں کے باوجود بنیادی ڈھانچہ اور مالی امداد فراہم کرتے دیکھا ، ان دعوؤں کو اہمیت دیتے ہیں۔
"بین الاقوامی نظام کا محافظ"؟
چین کا گلوبل گورننس انیشی ایٹو متعارف کرانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ موجودہ عالمی نظام کی نوعیت پر اسے کچھ خدشات ہیں، حالانکہ وہ اس کی حفاظت کا دعویٰ کرتا ہے۔ درحقیقت اگر چین جنوبی بحیرہ چین میں بین الاقوامی قانون کو کمزور کر رہا ہے، 2013 سے ہندوستان کے ساتھ بار بار بڑے پیمانے پر سرحدی معاہدوں کی خلاف ورزیاں کرکے ان سمجھوتوں کو پامال کر چکا ہےاور اپنے تجارتی ہتھکنڈوں کے ذریعے ڈبلیو ٹی او کے قواعد کو مسلسل چیلنج کرتا رہا ہے، تو یہ بین الاقوامی نظام کا کوئی پرعزم محافظ نہیں ہے۔
چین ایک ہی وقت میں دو کام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ عالمی نظام کے ان حصوں یعنی امریکی بالادستی، مغربی لبرل اقدار اور علاقائی دعووں کو چیلنج کر رہا ہے جنہیں وہ اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے، اور ان حصوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے جو اس کے حق میں توازن برقرار رکھتے ہیں ، جیسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت اور آزاد تجارت کے اصول، جنہیں وہ اپنی معاشی طاقت کی بدولت اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
گرچہ دستاویز میں بار بار "عالمی طرزِ حکمرانی کے نظام و اداروں کی اصلاح" کا ذکر ہے لیکن اس کا مطلب "موجودہ عالمی نظام کو تلپٹ کرنے یا موجودہ نظام کے باہر کوئی نیا فریم ورک بنانا نہیں" ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چین محض ان عالمی اداروں کی کارکردگی میں بہتری چاہتا ہے جو "تمام ممالک ، خاص طور پر ترقی پذیرممالک " کے مفاد میں کام کریں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی قیادت نہ صرف ناکارہ ہے بلکہ ترقی پذیر ممالک کے مفاد میں کام نہیں کرتی اور چین ان دونوں کاموں کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے۔ خصوصاً سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت چین کے لیے موجودہ عالمی نظام میں خالص فائدہ ہے جسے وہ کھونا نہیں چاہے گا۔ اسی لیے چین اقوامِ متحدہ کے نظام کی نااہلیوں کو برداشت بھی کرے گا، بجٹ اور امن مشن میں علامتی طورپر تھوڑا بہت پیسہ بھی دے گااور اہم اقوامِ متحدہ کے اداروں کی سربراہی بھی چاہے گا ، بشرطیکہ وہ اس مستقل فائدے کو برقرار رکھ سکے۔
اقوام متحدہ کا ریگولر بجٹ 3.7 ارب ڈالر اور امن مشنوں کا بجٹ 5.6 ارب ڈالر ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ کے 2025 کے ریگولر بجٹ کے لیے 1.5 ارب ڈالر اور چین 597 ملین ڈالر کے بقایا جات ادا کرنے کے پابند ہیں، جب کہ امن مشنوں کے بجٹ میں بالترتیب 1.5 ارب اور 587 ملین ڈالر واجب الادا ہیں۔ امریکہ تو اقوام متحدہ کی کارروائیوں اور بیوروکریسی پر تنقید کرتا رہا ہے اور فنڈز روک کر یا کم کر کے انہیں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے، مگر یہ واضح ہے کہ چین بھی حمایت کے دعوؤں کے باوجود اقوام متحدہ کو آہستہ آہستہ کمزور کرنے کے عمل میں شریک ہے۔ چینی اپنی ویٹو طاقت کو مفید سمجھتے ہیں اور فنڈ کی ادائیگی میں تاخیر کے لیے طریقہ کار جیسی دلیلوں کا حوالہ دیتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اندر زیادہ اثرورسوخ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چین بھی اقوامِ متحدہ کی مکمل حمایت کا خواہشمند نہیں جب تک کہ یہ ادارہ مکمل طور پر اس کے مفادات کا پابند نہ ہو۔درحقیقت چینی بھی امریکہ کی طرح پیسے کی طاقت سے اقوام متحدہ کا ایجنڈا تشکیل دے رہے ہیں۔ اگر امریکہ اور چین کی ان کے متضاد ایجنڈوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے اندر کشمکش جاری رہی تو یہ مزید کمزور ہوتا جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ چین کو گلوبل گورننس انیشی ایٹو جیسی نئی منصوبہ بندی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
انتخاب کا فریب
در حقیقت چین کے عالمی اقدامات اس مفروضے کے تحت کام کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اقوام متحدہ اوریا ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ناکام ہو رہے ہیں یا وہ اس ممکنہ صورت حال کے لیے تیاری کر رہا ہے کہ یہ ادارے آخرکار ختم ہوجائیں گے۔چینی دستاویز موجودہ عالمی طرزِ حکمرانی میں تین بڑی کمیوں کی نشاندہی کرتا ہے: پہلی یہ کہ گلوبل ساؤتھ کی نمائندگی کم ہے، دوسرے، اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں پر مؤثر طور پر عمل نہیں ہو رہا اور عالمی نظام میں مؤثر کارکردگی کا فقدان ہے۔ جب کہ نئی ابھرتی ہوئی جہتوں جیسے مصنوعی ذہانت، سائبر اسپیس اور خلائی شعبہ میں حکمرانی کا خلا موجود ہے۔ ان میں سے ہر کمی اس بات کو نمایاں کرتی ہے کہ چین ان خلاؤں کو پُر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی کے ساتھ اپنے مفادات کو بھی فروغ دے سکتا ہے۔
چین کے عالمی منصوبوں، جن میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) بھی شامل ہے، کو ایسے متبادل ڈھانچے تعمیر کرنے کی کوشش کے طور پر سمجھا جانا چاہیے، جو اگرچہ ابھی باقاعدہ اداروں کی شکل نہیں رکھتے، لیکن ایک طرف اقوام متحدہ کے نظام کو ممکن حد تک سہارا دینے کا کام کرتے ہیں تو دوسری طرف چین کو ضابطہ سازی، سفارت کاری اور حکمرانی کا عملی تجربہ فراہم کرتے ہیں، تاکہ وہ اقوام متحدہ اوریا ڈبلیو ٹی او کے ممکنہ اختتام کے لیے تیار ہو سکے۔ جب ایسا ہوگا تو غالب امکان ہے کہ ان کی جگہ کوئی بین الاقوامی رکنیت والا نیا ادارہ قائم نہ ہو سکے گا۔ گرچہ چین نے اب تک اپنے عالمی منصوبوں کو رسمی ادارہ جاتی شکل دینے سے گریز کیا ہےلیکن یہ بات واضح ہے کہ یہ ان کے سب سے قریب متبادل کے طور پر سامنے آئیں گے اور کم از کم جزوی طور پر اس خلا کو پُر کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ان عالمی منصوبوں کے ذریعے بیجنگ چھوٹے ممالک کو جو کثیرجہتی نظام کے نظم و حفاظتی ڈھانچے کے عادی ہیں، اس خیال کا عادی بنا رہا ہے کہ مغرب کی قیادت والے عالمی اداروں کے مقابل ایک چینی متبادل کو قبول کیا جا سکتا ہے۔
لیکن ان چار الگ الگ عالمی منصوبوں کے اعلان کیا وجہ ہوسکتی ہے؟یہ غالباً چین کے اپنے اسٹائل میں کام کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ترقی اور سلامتی جیسے ٹھوس معاملات کو ثقافتی تبادلوں جیسے زیادہ غیر محسوس اہداف یا عالمی حکمرانی اور ضابطہ سازی جیسی طویل بحثوں سے الگ رکھنا مفید ہے۔ یہ الگ ادارے چین کو اپنے سفارتی اور معاشی وسائل کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا موقع بھی دیتے ہیں، کیوں کہ وہ بیک وقت چار منصوبے یا ادارے چلا سکتا ہے—جب کہ ہندوستان جیسے گلوبل ساؤتھ کے بڑے ممالک چین کے مقابلے میں وسائل کی کمی کے باعث ایسا نہیں کر پائیں گے۔کاموں کی اس تقسیم سے چین کو یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ اگر کسی ایک ادارے کو کسی مخالفت کا سامنا ہو تو وہ دوسرے اداروں کے کام میں رکاوٹ نہ بنے، خصوصاً جب ان کی رکنیت مختلف ہو۔دوسرے لفظوں میں چین کے پاس ایک مختلف قسم کا ویٹو پاور ہے جس کے تحت وہ ایک شعبے میں اختلافات کو دوسرے شعبے کے کام میں تعطل نہیں ڈالنے دیتا۔یا کم از کم فی الحال اس کی یہی سوچ ہے۔اس طرح چین کے عالمی اقدامات ان ممالک کو اختیار کا ایک فریب دیتے ہیں جو ان میں شامل ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسا فریب ہے جو شاید اقوامِ متحدہ یا ڈبلیو ٹی او میں جاری تعطل کے مقابلے میں زیادہ قابلِ قبول محسوس ہوتا ہے۔
ہندوستان کے پاس کیا متبادل ہے
اب ہندوستان کے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ اس کے پاس کیا متبادل ہیں۔ اقوام متحدہ اور ڈبلیو ٹی او ایسے ادارے ہیں جو فی الحال ہندوستان کے لیے پوری طرح موثر نہیں ہیں ۔ کیوں کہ پہلے میں چینی ویٹو اور دوسرے میں امریکی ہٹ دھرمی اور چین کے ذریعہ ڈبلیو ٹی او کو کمزور کرنے کی کوشش موجود ہے۔ اپنی تمام کمزوریوں اور نااہلیوں کے باوجود شاید یہ ادارے اب بھی اُن متبادل ڈھانچوں سے کہیں بہتر ہیں جو مکمل طور پر چین کے کنٹرول میں ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ہندوستان موجودہ نظام کو مضبوط رکھنے اور اسے سہارا دینے کے لیے کیا اقدامات کر سکتا ہے؟
ہندوستان کے پاس اقوام متحدہ اور اس کی مختلف سرگرمیوں کو مالی تعاون دینے کی صلاحیت بڑھ رہی ہے۔ لیکن کیا (اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں)؟ نمائندگی کے بغیروہ خود کو پیسہ دینے کی اجازت دے سکتا ہے؟ اس کا جواب اس بات میں پوشیدہ ہے کہ ہندوستان کے پاس عالمی نظام کا کون ساویژن ہے۔ امریکہ کے علی الرغم جو خود کو حاصل مراعات کا دفاع چاہتا ہے، یا چین کی طرح جو غالب طاقت کو ہٹانا چاہتا ہے، دراصل ہندوستان کے مفادات ان دونوں کے درمیان ہیں ۔ یعنی یہ موجودہ عالمی نظام سے مکمل مطمئن نہیں مگر اسے مفید سمجھتا ہے۔یہ وہ نظام ہے جس میں ہندوستان کا دنیا کی سب سے اہم طاقت کے ساتھ ایک کام چلانے والا تعلق ہے جو اسے اگلی اہم طاقت جو اس کی سرحد ی حریف بھی ہے، کے ساتھ تعلق میں سہارا دیتا ہے۔اس دوران ہندوستان کئی دہائیوں سے اس درمیانی پوزیشن میں رہا ہے اور وہ ابھی تک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور اس کے چار عالمی اقدامات جیسے بڑے اور وسیع منصوبے بنانے میں تخلیقی طور پر آگے نہیں بڑھ سکا۔ہندوستان کے پاس منصوبہ سازی کی کمی نہیں ہے اور پروجیکٹ موسم، ایشیا-افریقہ گروتھ کوریڈور یا انٹرنیشنل سولر الائنس اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ مگر ان منصوبوں کو غیر ملکی شراکت داروں کو بیچنے اور بڑے پیمانے کے پروجیکٹ میں تبدیل کرنے میں کامیابی کی شرح کم رہی ہے۔ جب تک یہ صورت حال برقرار رہے گی ہندوستان ہمیشہ چین کے عالمی اثر و رسوخ کی لہروں میں بہتا رہے گا۔
This article was originally published as Jabin T. Jacob. 2025. ‘India’s China policy at a crossroads’. The Tribune. 19 August.
Translated by Abu Zafar
Share this on: