14 June 2024
گلگت بلتستان کا قضیہ اور ہند-چین سرحد کی لمبائی
چین اور ہندوستان کے مابین سرحد کی لمبائی کتنی ہے؟ ہوسکتا ہے کہ آپ کو اس سوال کا جواب آسان لگے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق : "ہندوستان کے پاس 15106.7 کلومیٹر زمینی سرحد اور 7516.6 کلومیٹر کی ساحلی پٹی ہے جس میں جزیروں کے علاقے بھی شامل ہیں۔" اس کے بعد اس میں پڑوسی ممالک کے ساتھ ہندوستان کی زمینی سرحدوں کی لمبائی درج ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ سب سے لمبی سرحد (4096 کلومیٹر)، پھر چین (3488 کلومیٹر) اور پاکستان (3323 کلومیٹر) پر مشتمل ہے۔ لیکن یہ غلط ہے۔چین کے ساتھ ہندوستان کی بین الاقوامی سرحد 4056 کلومیٹر ہے۔
اس کی وضاحت درج ذیل ہے۔
وزارت داخلہ کے ذریعہ بتائی گئی لمبائی (3488 کلومیٹر)دراصل لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) کی لمبائی ہے، بین الاقوامی سرحد کی نہیں۔لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا تصور اپریل 1960 میں دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران چینی وزیر اعظم چو این لائی(Zhou Enlai) نے دیا تھا (اس سے قبل انہوں نے 1959 کے آخر میں وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو لکھے گئےایک خط میں مبہم طور پر اس کا ذکر کیا تھا)۔چواین لائی نے سرحدی مسئلے کے حل کے لیے چھ نکات تجویز کیےتھے جن میں پہلے دو نکات یہ تھے:
● دونوں فریقوں کےمابین سر حد کے بارے میں تنازعات پائے جاتے ہیں۔
● دونوں ممالک کے درمیان ایک لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) موجود ہے اور وہاں تک دونوں فریق انتظامی دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ تب ہندوستانی حکومت نے چواین لائی کی تجویز یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ وہ موجودہ بحث سے متعلق نہیں ہے ۔ چواین لائی سرحدی تنازعہ پر ہندوستان کے ساتھ بات چیت کے لیے دہلی آئے تھے۔ اس کے بعد ہندوستانی اور چینی حکام نے کئی مہینوں تک ملاقاتیں کی اور اس دوران نئی دہلی نے یہ کہتے ہوئے اپنی پوزیشن واضح کی کہ: "ہند- چین سرحد ہندوستان، چین اور افغانستان کی سرحدوں کے سہ رخی جنکشن سے شروع ہوتی ہے اور درہ کِلک ، منٹاکا درہ ، درہ خرچنائی،درہ پارپک اوردرہ خنجراب سے ہوتی ہوئی مشرق کی طرف جاتی ہے ۔ یہ درے ہندوستان میں دریائے ہنزہ جو کہ سندھ کے دریاؤں میں سے ایک ہے اورشنچیانگ میں یارکندکی ندیوں میں سے ایک دریائے قرہ چکار کے درمیان واقع ہیں۔ یہ سرحددرہ خنجراب سے دریائے شکسگام یا مزتغ کے شمال مغربی موڑ تک ایک اٹھان کے ساتھ واقع ہےجہاں یہ اسے عبور کرتی ہے اورپھر اگِل پہاڑوں کی چوٹی کی طرف چڑھ جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ درہ اگل کے پانیوں، درہ مارپو اوردرہ شکسگام سے ہوتی ہوئی درہ قراقرم تک جاتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک مقام کے لیےرہنما ہدایات دی گئی تھیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخی طور پر گلگت بلتستان کی سر زمین مہاراجہ کےجموں و کشمیر کا حصہ تھی۔ ہندوستان کی بین الاقوامی سرحد اس وقت افغانستان کے ساتھ سہ رخی مقام سے شروع ہوتی ہےجب کہ ایل اے سی درہ قراقرم سے شروع ہوتی ہے۔
راج ناتھ سنگھ کا اعلان
28 اکتوبر 2022 کو ہندوستانی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے سری نگر میں کشمیر میں ہندوستانی فوج کی تعیناتی کے 75 ویں سال کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ گلگت بلتستان ہندوستان کا حصہ ہے لیکن یہ اس وقت مقبوضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ "شمال کی طرف ہندوستان کی ترقی کا سفر گلگت بلتستان تک پہنچنے کے بعد مکمل ہو جائے گا۔"
راج ناتھ سنگھ نے 'پڑوسی ملک' کے غیر قانونی قبضے والے علاقوں کی بازیابی کے لیے ہندوستانی پارلیمنٹ میں منظور کی گئی 1994 کی قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔ "ہم نے شمال کی طرف ابھی اپنا سفر شروع کیا ہے۔ ہمارا سفر اس وقت مکمل ہو گا جب ہم پارلیمنٹ کی طرف سے 22 فروری 1994 کو منظور کی گئی متفقہ قرارداد کو مکمل طور پر نافذ کرلیں گے اور اپنے باقی ماندہ علاقوں جیسے گلگت بلتستان تک پہنچ جائیں گے۔"
تاریخ
1935 میں وائسرائے نے کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کو قائل کرکے 'برطانوی سلطنت کے تحفظ کے مفاد میں' گلگت ایجنسی کے ساتھ ساتھ پہاڑی ریاستوں ہنزہ، نگر، یاسین اور اشکومان کو 60 سال کے لیے انگریزوں کو لیز پر دے دیا۔ اس کے بعد گلگت کا انتظام پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے تحت آگیا جس میں ایک پولیٹیکل آفیسر تعینات تھا اور وائسرائے کو رپورٹ کرتا تھا۔
یکم اگست 1947 کو برطانوی بالادستی ختم ہوگئی اور گلگت دوبارہ مہاراجہ کے کنٹرول میں آگیا۔ برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ لیفٹیننٹ کرنل راجر بیکن نے اپنا چارج مہاراجہ کے مقرر کردہ نئے گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو سونپ دیا۔ ایک برطانوی افسر میجر براؤن گلگت سکاؤٹس کا انچارج بنارہا۔ 26 اکتوبر 1947 کو جموں و کشمیر پر پاکستان کے ذریعہ قبائلی حملے کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے الحاق کے ایک دستاویز پر دستخط کیا اور یونین آف انڈیا میں شمولیت اختیار کرلی۔ تاہم میجر براؤن نے اس بہانے کہ (گلگت کے) سرحدی اضلاع کے کچھ رہنما پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے، مہاراجہ کے احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس نے یکم نومبر 1947 کو پورا علاقہ پاکستان کے حوالے کر دیا۔
1948 کے لندن گزٹ میں ایک دلچسپ اعلان شائع ہوا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ بادشاہ نے "برطانوی سلطنت کے سب سے اعلیٰ ترین تقرریوں کے لیے... بخوشی حکم صادر کیا ہے ..." اس فہرست میں "براؤن، میجر (قائم مقام) ولیم الیگزینڈر ،خصوصی فہرست (ہندوستانی فوج میں پہلے تعینات ) شامل ہے۔
سوال یہ ہے کہ براؤن کو کیوں ایوارڈ دیاگیا؟ صرف اس لیے کہ براؤن نے حال ہی میں لندن کی ایما پر پاکستان کو اسٹریٹجک لحاظ سے اس اہم علاقہ 'پیش کش' کی تھی۔
ایک برطانوی مضمون
2019 میں ایک ہندوستانی نیوز آرٹیکلWhen the British poured scorn over Gilgit نےگلگت میں 1947 کی بغاوت کے پس منظر کی وضاحت یوں کی ہے: " حکومت کو قوت فراہم کرنے کےلئے گلگت سکاؤٹس " نامی ایک فورس کا بہت جانچ پرکھ کے بعد انتخاب کیاگیا ہےجو برطانوی افسران کے زیر کنٹرول پہاڑی علاقوں میں تیزی سے نقل و حرکت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے"۔
مضمون میں مزید درج ہے: " براؤن نے ایک بغیر خون خرابے والی بغاوت کی منصوبہ بندی خفیہ نام 'دتہ خیل' کے تحت کی تھی، جس میں مرزا حسن خان کی زیر قیادت جموں کشمیر کی چھٹی انفنٹری کے ایک باغی ٹکڑی نے بھی شمولیت اختیار کی تھی۔"
اپنی یادداشت Gilgit Rebellion: The Major who Mutinied over the Partition of India میں براؤن نے نومبر 1947 میں پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکرکیاہے: "کرنل بیکن، کرنل اسکندر مرزا اور مجھے ڈیوڑھی میں بلایا گیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم ایک ڈسک کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے اور کشمیر اور وسطی ایشیا کے ایک بڑے سے نقشے پر نگاہیں ٹکائے ہوئے تھے۔ …مسٹر لیاقت علی خان نے گلگت ایجنسی میں امن کے تحفظ کے لیے میں نےجو کچھ کیاتھا اس پر مجھے مبارکباد دینے اور اس کے لیے میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔
اس کے بعد لیاقت علی خان نے کہا: "براؤن [گلگت کے حوالے سے] مجھے عسکری نقطہ نظر سے اپنے خیالات سے آگاہ کیجئے۔" میجر نے اسکاؤٹس کو دوبارہ منظم کرکے علاقے کا دفاع کرنے کے اپنے منصوبوں کی تفصیل سے وضاحت کی۔ "ٹھیک ہے،" وزیر اعظم نے کہا: "اس سے عسکری زاویہ ختم ہوجاتا ہے۔"
اگرچہ بغاوت کے غیر قانونی ہونے کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے لیکن ایک اہم سوال باقی رہتا ہے کہ: کیا برطانوی صدر مقام کو مطلع کیا گیا تھا؟
اس وقت پاکستانی فوج کا ڈھانچہ مکمل طور پر برطانوی تھا۔ لہذا اس کا جواب صرف یہی ہو سکتا ہے کہ میجر براؤن کے برطانوی اعلیٰ کمان کو پاکستان کو ان کے ’تحفے‘ کے بارے میں علم تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں برطانوی اعزاز OBE کے لیے نامزد کیا گیا تھا یہ اس کا مزید ثبوت ہے۔ بادشاہ عام طور پر اس اہم ایوارڈ کے لیےکسی 'بھگوڑے' یا 'باغی' کا انتخاب نہیں کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں
اقوام متحدہ کی 17 جنوری 1948، 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کی قراردادوں ( UNCIPسے متعلق قراردادوں) نے واضح کیا ہےکہ "پاکستان جموں و کشمیر پر خودمختاری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔" 1963 میں ہندوستانی وزارت خارجہ کے ایک خفیہ نوٹ میں مزید واضح کیا گیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی شرائط کے مطابق"پاکستان ان علاقوں کے دفاع کے لیے 'حقیقی کنٹرول' کا راستہ بھی نہیں استعمال کرسکتا۔"
عملی طور پر اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ 2 مارچ 1963 کو پاکستان اور چین کے درمیان گلگت ایجنسی کی شکسگام وادی چین کو منتقل کرنے کے حوالے سے جو معاہدہ ہوا وہ بھی قانونی طور پر ناجائز ہے۔ اس کا ایک اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اس علاقے کے باشندے اگر ہندوستان جانا چاہتے ہیں تو انہیں ہندوستانی شہریت کا حقدار ماننا چاہیے۔
ایک برطانوی قرارداد
برطانوی پارلیمنٹ نے حیرت انگیز طور پر 2017 میں ایک قرارداد منظور کی جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ گلگت بلتستان جموں و کشمیر کا حصہ تھا۔ یہ تحریک 23 مارچ 2017 کو کنزرویٹو پارٹی کے باب بلیک مین نے پیش کی تھی۔ اس میں لکھا ہے: " گلگت بلتستان ہندوستان کی ریاست جموں و کشمیر کا ایک قانونی اور آئینی حصہ ہے جس پر پاکستان نے 1947 سے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہےاور جہاں لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق بشمول آزادی اظہار رائےکے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔"
دو سال بعد حکومت ہند کی طرف سے جاری کردہ نئے نقشوں میں لداخ کے ضلع لیہہ کو دکھایا گیا ہے جس میں گلگت، گلگت وزارات، چلہاس اور 1947 کے قبائلی علاقے شامل ہیں۔لہذا ہمیں امید ہے کہ چین اور ہندوستان کے درمیان سرحد کی صحیح لمبائی بھی جلد ہی سب کے سامنے آ جائے گی۔
کلاڈ ارپی مرکز برائے ہمالین اسٹڈیز، شیو نادر انسٹی ٹیوشن آف ایمننس کے ممتاز فیلو ہیں۔ ان کا اصل مضمون انگریزی میں ہےجس کا حوالہ درج ذیل ہے۔
اس مضمون کا ترجمہ ابوظفر نے کیا ہے۔
Original: Claude Arpi. 2023. ‘Gilgit Baltistan and How India gets the Length of its Border with China Wrong’. Centre of Excellence for Himalayan Studies, Shiv Nadar Institution of Eminence. Commentary. 19 February.
Translated by Abu Zafar
Share this on: