...

19 September 2025

تنازعات میں چین کا طرز ثالثی



 بڑی طاقتیں نہ صرف تنازعات شروع کرتی ہیں اور  فریق بن کر ان میں حصہ لیتی ہیں بلکہ بعض اوقات وہ ثالث کا بھی کردار ادا کر سکتی ہیں تاکہ تنازع کو ختم کرنے کی کوشش کی جا سکے۔

شاید اس پر یقین کرنا مشکل ہو مگر1990 سے لے کر اب تک امریکہ کم از کم 11 تنازعات کے حل میں شامل رہا ہے، جن میں وسطی امریکا، شمالی آئرلینڈ، سابق یوگوسلاویہ اور سوڈان  کے تنازعات شامل ہیں۔اور اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں  ہے کیوں کہ ایسا بڑی طاقتوں کا خاصہ ہے۔ ان میں سے کچھ تنازعات میں وہ خود بھی فریق تھا۔ تازہ مثال جون میں اس  کی اسرائیل-ایران تنازع ختم کرانے کی کوشش ہے، جب کہ اس کے ساتھ ساتھ اس نے ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری بھی کی۔ چین، جو ایک ابھرتا ہواسپر پاور ہے، سمیت کئی ایک  نے یہ نکتہ اٹھایا کہ پہلی کوشش دوسرے سے کمزور پڑ جاتی ہے۔ لہذا سوال یہ ہے کہ چین کا ثالث کے طور پر کیا ریکارڈ ہے اور اس کے محرکات کو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں؟

چین کا خانہ جنگیوں یا بین الاقوامی تنازعات میں ثالث کا کردار ادا کرنے کا رجحان  نسبتاً  نیا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں اس کی پالیسی "ایک طرف جھکاؤ" پر مبنی تھی، یعنی امریکہ اور سوویت یونین کی طرح وہ بھی زیادہ تر تنازعات کو سلجھانے والے کے بجائے ان میں ایک فریق کاکردار ادا کرتا تھا ۔ ماؤ کے زمانے کے چین میں تو جدوجہد یا تنازع کواپنے موقف واضح کرنے کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ امریکہ کی طرح چین بھی ہندوستان جیسی طاقتوں کو، جو سرد جنگ کے دوران غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرتی تھیں،  کم تر سمجھتا تھا، بلکہ شاید ناپسند بھی کرتا تھا ،

چین کی پالیسی کے محرکات

ماؤ کے دور کے خاتمے اور تنگ شیاؤپنگ کی اصلاحات کے آغاز کے بعد، چین کی جامعات اور خارجہ پالیسی کے اداروں کو بھی اس قابل بنانے کے لیے بدلا گیا کہ ملک دوبارہ بین الاقوامی میدان میں قدم رکھ سکے۔ مگر اس بار وہ ایک نسبتاً نرم طاقت کے طور پر ابھرا، جو دنیا سے سرمایہ کاری اور مہارت حاصل کرنے کا خواہاں تھا۔ چین نے یہ بھی سمجھا کہ اقوام متحدہ اس عالمی روابط کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

سال 2000 کے بعد سے جب اقوام متحدہ کے مشنوں میں امریکہ کے فوجی اور پولیس اہلکاروں کی تعداد گھٹنے لگی، تو چین کی شمولیت بڑھتی گئی۔ اپریل 2025 تک اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں امریکہ کے صرف 19 اہلکار تھے، جب کہ چین 1800 سے زیادہ اہلکار بھیج کر آٹھویں نمبر کا سب سے بڑا حصہ لینے والا ملک بن گیا۔ 2024-2025 میں امریکہ سب سے بڑا  مالی مددگار رہا اور چین دوسرے نمبر پر تھا۔ لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ حکومت میں امریکہ نے کئی تعاون روک دیے اور باقی پر بھی نظرثانی شروع کر دی، کیوں کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو کم کر رہا ہے۔ اس لیے امکان ہے کہ چین جلد ہی اس میدان میں بھی امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔

یہاں نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے امن قائم رکھنے والے مشنوں میں شرکت کو اس بات کا پیمانہ مانا جا سکتا ہے کہ کوئی ملک ثالث کے طور پر کتنا معتبر ہے۔ اور امریکہ اور چین کی شمولیت میں فرق کی وجہ سے چین کو زیادہ اعتبار حاصل ہوا ہے۔

تنازعات میں ثالثی کے حوالے سے چین کی حالیہ کوششیں اس وقت نمایاں ہونا شروع ہوئیں جب وہ 2000 کی دہائی میں شمالی کوریا کے جوہری مسئلے پر چھ فریقی مذاکرات (Six-Party Talks) کا رکن بنا اور 2013 میں شمالی میانمار کے کاچن تنازع میں شامل فریقین کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی کی۔ اس ضمن  میں بیجنگ کی پہلی بڑی پیش رفت 2015 میں  اس وقت سامنے آئی جب اس نے جنوبی سوڈان کی خانہ جنگی میں ثالثی کی جس کا نتیجہ آخرکار ایک امن معاہدے کی صورت میں نکلا۔ اسی طرح اس نے شام کی  خانہ جنگی کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے وفود کی میزبانی بھی کی۔ اسی سال 2015 میں چین افغان امن عمل میں مبصر کے طور پر شامل ہوا۔ جلد ہی اس نے افغانستان کے معاملے پر "ہارٹ آف ایشیا" (Heart of Asia) کے کثیر فریقی اجلاس میں اپنی شمولیت بڑھائی اور بالآخر کابل میں طالبان اور رپبلکن حکومت کے درمیان مذاکرات کی میزبانی تک پہنچ گیا۔

چین ثالثی کیوں کرتا ہے؟

لیکن سوال یہ ہے کہ آخر چین کو ثالثی میں اتنی دلچسپی کیوں  ہے؟ اس ضمن میں قومی سلامتی سے متعلق خدشات سب سے اہم ہیں۔

ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ چین زیادہ تر اُن تنازعات میں دلچسپی لیتا ہے جو اس کے آس پاس کے خطے کے ہوں۔ گرچہ اُس نے وقتاً فوقتاً اسرائیل-فلسطین تنازع میں ثالثی کی پیشکش کی  لیکن اس نے میانمار اور افغانستان کے معاملات میں کہیں زیادہ سرگرمی دکھائی۔میانمار کا معاملہ پیچیدہ ہے جہاں مختلف نسلی گروہوں کی افواج اور فوجی حکومت کے درمیان بیک وقت کئی خانہ جنگیاں جاری ہیں، لیکن چین نے روہنگیا مسئلے پر بھی بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان ثالثی کی کوشش کی ہے۔ تاہم یہ کوششیں شاذونادر ہی مثبت نتائج لا سکیں۔ بنگلہ دیش کا یہ مؤقف رہا کہ چین روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زار یا مسئلے کے حل سے زیادہ میانمار حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات بنائے رکھنے اور دونوں ممالک کے درمیان محض اپنے روابط استواررکھنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔میانمار کی خانہ جنگی کے تازہ ترین معاملے میں بھی چین کی کوششیں تنازع کو ختم نہیں کر سکیں، حالانکہ میانمار کی مختلف نسلی افواج اور دارالحکومت میں قابض فوجی حکومت دونوں پرایک  عرصے سے اُس کا اثر و رسوخ ہے۔ مشکل حالات میں ہمیشہ چین اپنی سلامتی اور سفارتی مفادات کو ترجیح دیتا ہے ۔ یعنی سرحدی تحفظ اور تجارت کو برقرار رکھنا اور یہ یقینی بنانا کہ میانمار میں دیگر طاقتیں کوئی کردار ادا نہ کر سکیں۔

چین اپنی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی خارجہ سرگرمیوں یا اثر و رسوخ کو اپنے قریبی یا روایتی خطوں سے آگے بڑھانے کا خواہاں ہے، چاہے وہ امن قائم رکھنے کے مشن ہوں یا تنازعات میں ثالثی کے اقدامات۔ بیجنگ کا یہ احساس ہے کہ اسے "سرگرم ہو کر کچھ حاصل کرنا" ضروری ہے، یا کم از کم یہ دکھانا چاہیے کہ وہ کوشش کر رہا ہے۔ اس کوشش کے لیے چینی اصطلاح jiji yousuo zuowei استعمال کی جاتی ہے، جو سابقہ جنرل سیکرٹری اور صدر ہو جنتاؤ کی طرف سے تنگ شیاؤپنگ کی مشہور 24حرفی حکمت عملی میں  اضافی طور پر شامل کی گئی، جس میں دیگر اقدامات کے علاوہ بنیادی طور پر چین کو اپنی صلاحیتوں کو چھپانے اور صبر سے مناسب وقت کا انتظار کرنے کا کہا گیا ہے، یعنی taoguang yanghui۔

لہذا چین نے اسرائیل اور فلسطین اور حال ہی میں روس اور یوکرین کے درمیان بھی امن مذاکرات کی میزبانی کی پیشکش کی ہے ۔ دونوں تنازعات میں چین کسی حد تک ایک فریق کے طور پر شامل ہے اور فلسطین اور روس کی حمایت کرتا ہے،لیکن امریکہ کے مقابلے میں نسبتاً غیر جانبدار نظر آتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مغربی طرز عمل کے متبادل کے طور پر دکھائی دینے کے نظریاتی مقاصد بھی چین کی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔

افغانستان میں اگست 2021 میں کابل میں ایک مغرب مخالف اور جمہوریت مخالف حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد، چین نے مذاکرات میں شامل ہو کر آخرکار نسبتاً مثبت نتائج حاصل کیے۔ چین ہمیشہ اس بات سے غیر جانبدار رہا ہے کہ کسی دوسرے ملک میں کون سی حکومت برسرِ اقتدار ہے، بشرطیکہ وہ چین کے مفادات کا احترام کرے، خاص طور پر تائیوان اور تبّت و شنچیانگ میں علیحدگی پسند تحریکوں سے متعلق بنیادی خدشات اور امریکہ یا مغربی طرزِ حکومت و کاروبار کو چین کے نقصان پر فوقیت نہ دے۔

واضح رہے کہ چین کی ثالثی کی کوئی بھی کوشش مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوئی۔ تاہم چین کے نقطۂ نظر سے اس طرح کی کوششیں، خاص طور پر جب صورت حال مایوس کن ہو یا چین کے پاس واضح طور پر  اس  کو تبدیل  کرنے کی صلاحیت نہ ہو ، ایک موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ یہ پیغام دے سکے کہ امریکی طاقت بشمول اس کی فوجی قوت اور تکنیکی مہارت ، اس طرح کے کئی تنازعات کے لیے ذمہ دار ہے۔ مسلم دنیا میں اس فرق  کی خاص اہمیت ہے کیوں کہ وہاں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی امریکی حمایت کو طویل عرصے سے ناانصافی اور جانبداری کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ اس کے برعکس چین نے خود کو منصفانہ اور غیر جانبدار ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر 2023 میں ایرانی اور سعودی حکام کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی میں ثالث کا کردار ادا کرنا، حالانکہ اس وقت امریکی حکومت جو بائیڈن کے زیر نگرانی اس مفاہمت کے لیے سرگرم تھی۔

چین کی ثالثی کی حکمت عملی دیگر ثالثوں جیسی ہو سکتی ہیں جس میں اقتصادی دباؤ، مالی مراعات، سیاسی دباؤ اور ضمانتیں شامل ہوتی ہیں۔ لیکن یہ کبھی کبھار محض دکھاوا یا تماشا بھی کر سکتا ہے۔مثال کے طور پر مارچ 2023 میں ایران-سعودی مذاکرات میں تین کونوں والی نشست رکھی گئی اوراسی سال بعد میں ایک اجلاس میں دائرہ نما نشست تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ تمام فریق برابر ہیں۔ تاہم ان نشستوں کے ذریعے چین نے اپنے آ پ کو نہ صرف ثالث کے طور پر بلکہ خطے میں ایک کھلاڑی کے طور پر بھی منوایا۔ غور کریں کہ جون میں کونمنگ میں ہونے والے بنگلہ دیش، چین اور پاکستان کے وازرت خارجہ کے سہ فریقی اجلاس کی افتتاحی نشست میں بھی تین کونوں والی نشست کا استعمال کیا گیا۔ اس ضرورت کے ساتھ بظاہر تخلیقی صلاحیت بھی جڑی ہوئی ہے کہ سیاسی طور پر 'سرگرم ہو کر کچھ حاصل کیا جائے' یعنی امریکہ یا ہندوستان سے زیادہ قابل اعتماد نظر آنا اور مذاکرات کو اپنی مرضی کے مطابق آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھنا۔

جانبدار ثالث

ان سب کے باوجود چین کی جانبداری کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ اسرائیل-ایران تنازع کے معاملے میں چین کا دعویٰ ہے کہ وہ "ہمیشہ طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی کی مخالفت کرتا ہے اور اختلافات کو بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے کی حمایت کرتا ہے۔" تاہم اس نے اپنے سوشل میڈیا پر تبصرہ کرنے والوں کو یہ تجویز دینے کی اجازت دی کہ اگر اسرائیلی سیاستداں تائیوان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیں تو چین ایران کے ساتھ اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کی بقا کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ چین نے ہند-پاک کشیدگی ختم کرنے کے لیے ثالثی کی پیشکش نہیں کی۔مئی کی چار روزہ ہند-پاک جھڑپ کے دوران چین نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا، حالانکہ ماضی میں وہ صرف امن و استحکام کی زبانی اپیلوں تک محدود رہا تھا۔ البتہ چینی ماہرین شنگھائی تعاون تنظیم میں دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کی شمولیت کو ایک موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں  اور ان کی تجویز ہے کہ جس طرح دیگر ممالک نے اپنے اختلافات اس فورم کے ذریعے حل کیے ہیں،اسی طرح ہندوستان اور پاکستان بھی اپنے دو طرفہ مسائل سلجھا سکتے ہیں۔

لہذااسرائیل-ایران اور ہند-پاک تنازعات کی یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ چین کی ثالثی عوامی بھلائی کا  کوئی کام نہیں بلکہ اپنے قومی سلامتی کے مقاصد کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔

 

(چین کی ثالثی کی حکمت عملی دیگر ثالثوں جیسی ہو سکتی ہیں، جس میں اقتصادی دباؤ، مالی مراعات، سیاسی دباؤ اور ضمانتیں شامل ہوتی ہیں۔ لیکن یہ کبھی کبھار محض دکھاوا یا تماشا بھی کر سکتا ہے۔مثال کے طور پر مارچ 2023 میں ایران-سعودی مذاکرات میں تین کونوں والی نشست رکھی گئی اور بعد میں سال کے دوران بعد کے ایک اجلاس میں دائرہ نما نشست، تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ تمام فریق برابر ہیں۔ تاہم ان نشستوں کے ذریعے چین نے
اپنے آ پ کو نہ صرف ثالث کے طور پر بلکہ خطے میں ایک کھلاڑی کے طور پر بھی منوایا۔)


Original: Jabin T. Jacob. 2025. ‘China’s ‘National Rejuvenation’ Above All, Look after Yourself: Conflict Mediation with Chinese Characteristics’. India’s World. 2 Sept.

Translated by Abu Zafar