...

28 May 2025

پہلگام حملہ پر چین کے ردعمل کا تجزیاتی مطالعہ




پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد انہ حملے کے بعد چین کی طرف سے متعدد بیانات سامنے آئے ہیں۔ ہمیں ان بیانات کو کس نظر سے دیکھنا چاہیے اور یہ بیانات ہمیں چین کے ہندوستان اور پاکستان کے بارے میں نقطۂ نظر کے حوالے سے کیا بتاتے ہیں؟

زبان کا مطلب خیز استعمال

چینی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا نے سے 22 اپریل کو حملے کی جو ابتدائی رپورٹ جاری کی تھی اس میں اسے دہشت گرد حملہ نہیں کہا گیا تھابلکہ اسے "سیاحوں کی ہلاکت" اور "ہندوستانی زیرِ انتظام کشمیر میں گھات لگا کر حملہ" قرار دیا گیاتھا۔ رپورٹ کا لہجہ مجموعی طور پر غیر جانبدار اور حقیقت بیان کرنے والا تھا، اگرچہ اس میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور "خطے کے موجودہ وزیر اعلیٰ" عمر عبداللہ کے حملے کے مذمت کرنے والے بیانات بھی شامل تھے۔ رپورٹ کا اختتام اس جملے پر ہوا کہ "1989 سے اس خطے میں موجود ہندوستانی فوجیوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان ایک گوریلا جنگ جاری ہے۔"[i]

اور بعد میں  سرخیوں اور متن میں تبدیلی آئی۔جیسے: "اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں دہشت گردانہ  حملے کی مذمت کی"[ii]ہیڈ لائن میں ،"کشمیر میں دہشت گرد انہ حملہ[iii]"اور "دہشت گردی اور انتہاپسندی" [iv] جیسے الفاظ استعمال کیے گئے۔لیکن اس کے باوجود یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ چین نے پاکستان کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ درحقیقت چین مستقل  غیر جانب داری کا تاثر دینے کی کوشش کرتا رہتاہے اور کہتا ہے کہ اسے "امید ہے کہ ہندوستان اور پاکستان تحمل کا مظاہرہ کریں گے، ایک ہی سمت میں آگے بڑھیں گے، متعلقہ اختلافات کو بات چیت اور مشاورت سے مناسب طریقے سے حل کریں گے اور خطے میں امن و استحکام کو مشترکہ طور پر قائم رکھیں گے۔"[v]

تاہم چین کی یہ "غیر جانبداری" ہندوستان کے حوالے سے دو کام کرتی ہے۔اوّل، یہ ہندوستان اور پاکستان کو ایک ہی سطح پر  پیش کرتی ہے۔ اور ایسی ہی چین (اور پاکستان) کی خواہش ہے کہ  پوری دنیا کے ممالک بھی کریں۔ چین ہندوستان کو نہ تو اپنا ہم پلہ سمجھتا ہے اور نہ ہی ایک مدمقابل طاقت۔ جب کہ پاکستان خود کو ہندوستان کے برابر تصور کرتا ہے۔ چین اور پاکستان کی جانب سے اشتعال انگیزیوں پر نئی دہلی کے ردعمل میں پایا جانے والا تفاوت خود اس تاثر کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ 2020 میں گلوان واقعے کے بعد ہندوستان کا فوجی ردعمل خاصا کمزور اور بےحوصلہ تھا۔ اس کے برعکس جب جارحیت کی ابتدا پاکستان کی جانب سے ہوتی ہے، تو ہندوستان نہ صرف سخت بیانات دیتا ہے بلکہ عملی فوجی کارروائی کے لیے بھی نسبتاً زیادہ تیار نظر آتا ہے۔

چین نے اس برابری کے تاثر (hyphenation) کا اظہارکرنے کے لیے غیر ملکی ثالثوں کا بھی سہارا لیا ہے۔ مثال کے طور پر اس نے مصری وزیرِ خارجہ کی ہندوستانی اور پاکستانی ہم منصبوں سے ٹیلیفون  پر ہونے والی گفتگو کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے دونوں ممالک سے "تحمل اور خود پر قابو رکھنے" کی اپیل کی۔[vi]

دوسرے ، چین جب دونوں ممالک سے "تحمل" کی اپیل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ "خطے میں امن و استحکام کو مشترکہ طور پر برقرار رکھیں" تو وہ دراصل اس کی ذمہ داری ہندوستان پر  ڈال رہا  ہوتاہے۔[vii] اس کے ساتھ ساتھ جب چین ایک "غیر جانب دار تحقیقات"[viii] کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ واضح طور پر یہ اشارہ دیتا ہے کہ وہ اس مسئلہ میں ہندوستان کے مؤقف کو تسلیم نہیں کرتا۔اور وہ کر بھی نہیں سکتا، کیوں کہ ہندوستان کے ساتھ اس کی دیرینہ دشمنی ہے۔ لہذا ہندوستان کی پاکستان سے متعلق سیاسی بیان بازی اور داخلی سیاست بھی چین کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کرے اور ہندوستان کو غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار رکھے۔

چین اور پاکستان کا  معاملہ پیچیدہ ہے

چین کی غیر جانبداری کا ایک تیسرا ر خ بھی ہے اوراس کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اگرچہ یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہے کہ اس کا اصل ہدف ہندوستان ہے، تاہم چین پاکستان کی بھرپور حمایت نہ کرکے اسے بھی ایک پیغام دے رہا ہے۔

پاکستان کو اس کی سیاسی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں کافی عرصہ سے چین کی جو حمایت ملتی رہی ہے وہ زیادہ تر زبانی جمع خرچ تک محدود رہی ہے۔ چین نے گرچہ اقوام متحدہ میں پاکستان میں موجود دہشت گردوں کو پابندکرنے کی ہندوستان کی کوششوں پر قدغن لگایا ہے لیکن اس حمایت کو اس نے اسلام آباد اور راولپنڈی پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھی استعمال کیا ہےتاکہ وہ چین کے اپنےان تحفظات کو دور کریں جن کا تعلق شنچیانگ کے ایغور باشندوں کی مبینہ دہشت گردی اور پاکستان میں چینی کارکنوں پر ہونے والے حملوں سے ہے۔

دوسرے الفاظ میں چین کی پاکستان کی  حمایت ایک طرح کے مفاد (transactional) پر مبنی رویے کا حصہ بنتی جا رہی ہے اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان کو حاصل امریکی حمایت بھی کم ہو چکی ہے۔اگرچہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے باعث دونوں ملکوں کے معاشی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے لیکن چین کی شراکت یا سرمایہ کاری اتنی زیادہ نہیں جتنا عموماً ظاہر کی جاتی ہے۔پاکستان میں چینی سرمایہ کاری سے متعلق اکثر اعداد و شمار خاصے مبالغہ آمیز ہوتے ہیں۔

شنہوا  میں پہلگام حملے سے متعلق رپورٹ سے چند گھنٹے قبل شائع ہونے والے ایک مضمون نے سی پیک کو اگرچہ "ایک انقلابی منصوبہ" قرار دیا  مگر اصل کہانی اعداد و شمار نے بیان کی۔اس کے مطابق سی پیک نے پاکستان میں اب تک صرف 75 ہزار سے زائد ملازمتیں پیدا کی ہیں اور 26 ارب امریکی ڈالر سے کچھ زیادہ سرمایہ کاری حاصل کی ہے۔[ix] پاکستان جیسے 25 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں ایک دہائی پر محیط منصوبے کے بعد یہ اعداد و شمار خاصے مایوس کن اور کم  ہیں۔

چین کی خواہش ہےکہ حالات جوں کے توں رہیں۔

چین شاید ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کسی کھلی جنگ کا خواہاں نہیں اور اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی تنازعے کی صورت میں امریکہ کسی نہ کسی شکل میں اس خطے میں دوبارہ فعال ہو سکتا ہےاور غالب امکان ہے کہ وہ ہندوستان کا ساتھ دے۔ایسی صورت میں چین کو بہر صورت پاکستان کا ساتھ دینا پڑے گا۔ لیکن چین کو اس حمایت سےنہ کوئی خاص سیاسی یا معاشی فائدہ حاصل ہوگا اور نہ ہی وہ اس وقت امریکہ یا ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید پیچیدہ بنانا چاہتا ہے۔

اگرچہ چین نے تجارتی جنگ کے دوران امریکہ کے خلاف جوابی اقدامات کیے اور سخت بیانات بھی دیے لیکن وہ اپنی معیشت پر اس کے طویل مدتی اثرات سے بھی فکرمند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے مذاکرات کا دروازہ امریکیوں کے لیے کھلا رکھا۔[x]ہندوستان کے ساتھ چین کا حالیہ رویہ، جس میں کچھ حد تک نرمی نظر آتی ہے، دراصل امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت سے متعلق چینی خدشات کا ایک جزوی نتیجہ ہے۔ چوں کہ یہ حالیہ تبدیلی ہے اس لیے چین فی الحال ایسی کسی بھی کارروائی سے گریز کرے گا جو ان تعلقات کو مزید الجھا دے،سوائے اُن محتاط اشاروں کے جو وہ پہلے ہی دے چکا ہے۔

لہذا یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی کی اپنےپاکستانی ہم منصب سے فون پر گفتگو کا اختتام اس بات پر ہوا کہ "تنازعہ ہندوستان یا پاکستان دونوں کے بنیادی مفادات کے خلاف ہے" ۔[xi]

تاہم اگر پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی فوج کو کمزور کرنا ضروری ہو اور اگر اس سے ہندوستان-پاکستان تعلقات میں بہتری آئے یا مغربی طرز کی جمہوریت مضبوط ہو تو چین اس کی  بھی مخالفت کرےگا۔ چین کی حکمران کمیونسٹ قیادت کہیں بھی جمہوری استحکام کو اپنے نظام کی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔

مختصراً یہ کہ  چین موجودہ حالات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ یعنی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایسی کشیدگی قائم رہے جو جنگ کی حد تک نہ پہنچے، مگر دونوں کو بتدریج کمزور کرتی رہے۔ ہندوستان کی توجہ چین سے نمٹنے کی تیاری سے ہٹا دے اور پاکستان کو چین کی امداد و اثر و رسوخ پر انحصار کرنے پر مجبور رکھے۔
 


  1. https://english.news.cn/20250422/9e751a7beeba46c193b39e4ab485919c/c.html
  2. https://english.news.cn/20250426/57b32b87d18f478fa7471169d5b6463d/c.html
  3. https://english.news.cn/20250428/ab2511e60b6d45b0966c64a565fbf9ce/c.html
  4. https://english.news.cn/20250427/486c764bba23429fb18ce3a857d6df56/c.html
  5. https://www.fmprc.gov.cn/eng/xw/fyrbt/lxjzh/202504/t20250428_11606273.html
  6. https://english.news.cn/20250427/486c764bba23429fb18ce3a857d6df56/c.html
  7. https://www.fmprc.gov.cn/eng/xw/fyrbt/lxjzh/202504/t20250428_11606273.html
  8. https://www.globaltimes.cn/page/202504/1332978.shtml
  9. https://english.news.cn/asiapacific/20250422/ed8149a7b76a4a4c98a473f2edb3c38e/c.html
  10. https://indianexpress.com/article/opinion/columns/trade-war-us-china-donald-trump-tariff-9970990/
  11. https://english.news.cn/20250427/82f0099ee0384e5aa63f567348bdf0a6/c.html

Original:  Jabin T. Jacob. 2025. ‘China’s calculated neutrality on Pahalgam’. The Tribune. 1 May.