18 November 2024
لداخ کے زرعی اور مویشی پالن کے طریقوں کا تحفظ ایک ناگزیر ماحولیاتی ضرورت
یہ مضمون لیہ-لداخ کے ماوراء ہمالیائی علاقے میں زرعی اور مویشی پالن کے نظام(agropastoralism) کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتا ہے، خاص طور پر گلہ بانی کے کے انتظام کی حکمت عملیوں اور روایتی گلہ بانی کی طرزِ زندگی پر سماجی و ماحولیاتی اثرات کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ تحقیق گیا، ایگو، اور شنگ کے علاقوں میں کی گئی ہے جو لیہ ضلع کے کھارو بلاک میں واقع ہیں۔ یہ گاؤں سطح سمندر سے 3,400 سے لے کر4,000 میٹرتک کی بلندی پر ہیں اور بلند چراگاہیں 4,000 میٹر سے بھی زیادہ اوپر ہیں۔ مقامی کمیونٹیوں میں وسائل کے استعمال کے رجحانات اور فیصلے کے عمل کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے ایک مخلوط طریقہ کار، جس میں اہم معلومات رکھنے والوں کے ساتھ غیر رسمی انٹرویوز اور گروپ مباحثے شامل ہیں، کا استعمال کیا گیا ۔
لداخ اپنی سرد اور خشک آب و ہوا کے لیے مشہور ہے، جہاں کا موسم بہت حساس اور وسائل محدود ہیں۔ ان حالات نے اس کے منفرد منظر نامہ کو نمایاں طور پر تشکیل دیا ہے اوریہ مخصوص ماحولیاتی اور ثقافتی طریقوں کی ترقی کا باعث بنے ہیں۔ نباتات کی عمودی تقسیم، جو بلندی، نمی، اور مٹی کی حالتوں سے متعین ہوتی ہے، ایک اہم مثال ہے کہ ماحولیاتی عوامل کس طرح مختلف نباتاتی اقسام کو مخصوص بلندیوں پر بڑھنے کے لیے سازگار بناتے ہیں۔ ان سخت حالات کے باوجود مقامی آبادی نے پائیداری کے اصولوں پر عمل کرنے کے لیےمنفرد علم اور رسومات اختیار کی ہیں۔
لداخ میں روایتی طریقوں جیسے کہ وراثت میں سب سے بڑے بیٹے کو ترجیح دینا(primogeniture)، تجرد(celibacy) اور ایک عورت کے کئی شوہر ہونے(polyandry) کے اہم کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ رسومات زمین کی ملکیت کا پائیدار نظام برقرار رکھنےمیں معاون ہیں، زمین کی تقسیم ہونے سے بچاتی ہیں اور قابل کاشت زمین کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتی ہیں۔ مزید برآں چھورپون جیسے کمیونٹی ادارے جو برفانی علاقوں سے حاصل ہونے والے آبی وسائل کا انتظام کرتے ہیں، پانی کے وسائل اور کمیونٹی اثاثوں کے انتظام میں اہم ہیں جو اس وسائل کی کمی والے علاقے میں روزی روٹی چلانے کے لیے ضروری ہیں۔ پہاڑی زرعی اور مویشی پالن کا نظام، جو مقامی معیشت میں گہرائی سے جڑا ہوا ہے، پہاڑی چراگاہوں کی طرف موسمی نقل مکانی پر انحصار کرتا ہے اور کمیونٹی کے لیے خوراک اور چارہ محفوظ کرنے کی ایک اہم حکمت عملی بناتا ہے۔ تاہم لداخ کے پہاڑی زرعی اور مویشی پالن گروپوں کے زندگی گزارنے کے طریقےسماجی و اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے نمایاں تبدیلیوں سے گزر رہے ہیں۔
دیہی کمیونٹیز میں موسمی چارے کی ضروریات کے مطابق وسائل کا استعمال مختلف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایگو گاؤں نے موسمی نقل مکانی کو مکمل طور پر ترک کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہاں اب چرواہے نہیں ہیں اور عارضی بستیوں کا نظام ختم ہو گیا ہے۔ اس کے برعکس شانگ کے چند گھرانوں میں بھیڑ بکریاں پالنے کا سلسلہ جاری ہے اور وہ گرمیوں میں موسمی نقل مکانی بھی کرتے ہیں۔ گیا گاؤں زیادہ روایتی ہے، جہاں زیادہ تر گھرانے مویشی پالتےہیں اور گرمیوں اور سردیوں دونوں چراگاہوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
پہاڑی چراگاہیں نہ صرف خوراک اور چارے کی فراہمی میں بلکہ منفرد طبی اور جنگلی خوردنی اشیاء کے ذخائر کے طور پر بھی کام آتی ہیں۔ چرواہے جو اکثر یہ جڑی بوٹیاں مقامی معالجین یا امچیز کے لیے اکٹھا کرتے ہیں، روایتی صحت کے نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مقامی ماحولیاتی اور چراگاہوں کے نظام کے بارے میں ان کا گہرے علم کی وجہ سے وہ بدلتے ہوئے سماجی و اقتصادی اور انتہائی موسمی حالات میں کلیدی کردار ادا کرنے والے گردانے جاتے ہیں۔
لیکن کئی چیلنجز ہیں جو ان روایتی طریقوں کے تسلسل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ روزگار میں تنوع، بیرونی زرعی نظاموں پر بڑھتا ہوا انحصاراور چیزوں تک زیادہ رسائی، تعلیم اور سیاحت اور فوجی سرگرمیوں کی توسیع کی وجہ سے روایتی طریقوں کی اہمیت میں کمی، قابل ذکر خدشات ہیں۔یہ مسائل جنگلی جانوروں کے شکاریوں سے لاحق خطرت اور عالمی درجہ حرارت سے ہونے والے اثرات جیسے سخت موسم اور کیڑے مکوڑوں کے حملوں سے مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ان مسائل کے باوجود وسائل کے انتظام، چراگاہوں اور غلہ بانی کے طریقوں کے حوالے سے علم کا ایک ذخیرہ موجود ہے جو وسائل کے موسموں کے مطابق استعمال کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔
لداخ میں زرعی اور مویشی پالنے کے طریقے جو مقامی ماحولیاتی حکمت میں گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں، سماجی و اقتصادی تبدیلیوں کی وجہ سےمسلسل چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں جس سے آب و ہوا کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت، ماحولیاتی نظام کی صحت، ثقافتی ورثہ، اور اشیائے خوردونوش پر کنٹرول کمزور ہوتا ہے۔ ان مقامی طریقوں کی حفاظت اور ان کو باقی رکھنے کی صلاحیت کے فروغ کے لیے مشترکہ حکمت عملی کی حمایت انتہائی ضروری جس سے مقامی معیشتوں کو ایسے سماجی و ماحولیاتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو دوسرے علاقوں میں بھی موجود ہیں۔
لداخ کے زرعی اور مویشی پالن کے طریقوں کو فوڈا ینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے ذریعہ عالمی اہم زرعی ورثہ نظام (GIAHS) کے طور پر باضابطہ تسلیم کرنے سے تحقیق اور صلاحیت کی ترقی کے نئے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔یہ اقرار نہ صرف زرعی اور مویشی پالن نظام کی اہمیت کو خوراک اور چارے کی حفاظت کے لیے اجاگر کرتا ہے بلکہ اس سے جڑے روایتی اداروں کے کلیدی کردار کو بھی نمایاں کرتا ہے جو مقامی روزگار اور معیشت کو برقرار رکھنے میں معاون ہیں ۔ زرعی مویشی پالن کے طریقوں اور تکنیکی ترقیات کے درمیان تعلق کا تجزیہ کر کےایسے طریقے وضع کیے جا سکتے ہیں جو اس نظام کے فوائد کے تسلسل کو یقینی بناتے ہوئے مقامی کمیونٹیز کو مزید توانااور مضبوط بنائیں۔
پہاڑی نظام حولیات، بشمول زرعی اور مویشی پالن نظام، اہم 'ماحولیاتی اشارے' ہیں۔ ان پیچیدہ سماجی و ماحولیاتی نظاموں کو سمجھنے سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے، پائیدار ترقی کو فروغ دینے اور لداخ ویژن 2050 ، جو کمیونٹی، نقل وحمل اور چھوٹے چھوٹے علاقوں کی ترقی پر زور دیتا ہے ،جیسے اقدامات کے ساتھ ہم آہنگ پالیسی سازی میں فائدہ ہوسکتا ہے ۔
اس طور پر GIAHS کا اقرار صحیح سمت میں ایک قدم ہے لیکن ان راویتی طریقوں کو نہ صرف محفوظ رکھنے بلکہ موجود چیلنجوں کے مقابلے کے لائق بنانے کے لیے مزید کام کی ضرورت ہے۔ مقامی کمیونٹیز، پالیسی سازوں اور محققین کے تعاون سے مشترکہ کوششیں ضروری ہیں تاکہ پائیدار حل تلاش کیا جاسکے جس میں مقامی علم کا احترام بھی ہو اور وہ علم اس حل کا حصہ بھی ہو۔ اس طرح ہم یہ یقینی بنا سکتے ہیں کہ لداخ کا زرعی مویشی پالن نظام نہ صرف مزید پھلے پھولے کرے بلکہ علاقے میں اشیاء خوردونوش کے تحفظ، ماحولیاتی صحت، اور ثقافتی ورثہ میں بھی اپنا اہم کردار ادا کرتا رہے۔
گرچہ چیلنجز متعدد ہیں لیکن لداخ کے زرعی مویشی پالن کے طریقوں میں موجود لچک اور حکمت پائیدار مستقبل کی تعمیر کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم ان طریقوں کو تسلیم کریں اور ان کی حمایت کے لیے معلومات پر مبنی اور جامع پالیسیوں کے ذریعے ماحولیاتی پائیداری اور ثقافتی تحفظ کو فروغ دیں۔
Original: Padma Ladon. 2024. ‘Preserving Agropastoral Practices in Ladakh: An Ecological Necessity’. Centre of Excellence for Himalayan Studies, Shiv Nadar Institution of Eminence. Commentary. 17 July.
Translated by Abu Zafar
Share this on: