...

15 November 2024

ہند-چین سرحدی معاہدہ اور چند سوالات



ہندوستانی خارجہ سکریٹری وکرم مسری نے دوشنبہ کے روز اعلان کیا کہ ہندوستان اور چین نے" لائن آف ایکچول کنٹرول پر گشت کے انتظامات پر ایک معاہدہ کیا ہے جس سے ان مسائل کا حل اور فوجوں کو پیچھے ہٹانا ممکن ہو گیا ہے جو 2020 میں" چینی تجاوزات کے بعد پیدا ہوئے تھے۔جس سوال کا جواب ابھی باقی ہے وہ یہ کہ آیا "فوجوں کی واپسی" ان تمام متنازعہ علاقوں بشمول مشرقی لداخ میں ڈیمچوک اور دیپسانگ کے وہ علاقے جنہیں نام نہاد 'وراثتی تنازعات' کے طور پر جانا جاتا ہے ،سے ہوگی جہاں دونوں ممالک کی طرف سے گشت بند کردی گئی تھی یا صرف وہ علاقے جن کے بارے میں 2020 میں تنازع ہوا تھا۔

مسری اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر جو چند گھنٹے بعد ایک اور تقریب میں خطاب کر رہے تھے ان دو علاقوں پر براہ راست سوالات کا جواب دینے سے گریز اں تھے اور بار بار 2020 کو اہم سال قرار دے رہے تھے۔ اس ہچکچاہٹ کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

ایک آسان وضاحت یہ ہے کہ یہ لوگ وزیر اعظم نریندر مودی کا انتظار کر رہے تھے جو روس کے کازان میں برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر چینی صدر شی جن پنگ سے متوقع ملاقات کے بعد زیادہ جامع بیان دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا تھا تو وزارت خارجہ چند دن مزید انتظار کیوں نہ کر سکی؟ دوسری ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عوام کو اتنی ہی معلومات دینے کا منصوبہ ہو اور مزید "اقدامات" ابھی باقی ہوں۔ 

ایک اور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس معاملے میں ابھی کتنی پیش رفت ہوئی ہے اس کا تخمینہ لگانا باقی ہو۔ ستمبر کے مہینہ میں جب جے شنکر نے اعلان کیا کہ" فوجوں کی واپسی کا مسئلہ تقریباً… 75 فیصد حل ہوچکا ہے" اور چین نے کہا کہ "دونوں ممالک نے مغربی سیکٹر میں چار علاقوں سے فوجوں کو پیچھے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے"، تو یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ ڈیمچوک اور دیپسانگ میں پرانے تنازعات، جہاں تعطل جاری ہے، انہیں حل کرنا باقی ہے۔ مسری کے اعلان کے بعد آنے والی خبروں سے یہی پتہ چلتا ہے البتہ اس کی تصدیق ہنوز باقی ہے۔

معاہدہ کے اثرات

گشت کا معاہدہ یقینی طور پر ہندوستانی سفارت کاری کی ایک کامیابی ہے لیکن یہ ایک محدود کامیابی ہے کیوں کہ ہندوستان نے گزشتہ چار سالوں میں اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں کی ہے - اس نے صرف چینی تجاوزات کو واپس لینے کا کام کیا ہے۔ نہ کہ اس کو سزا دینے کا اور نہ ہی سرحدی تنازعہ کو حل کرنے کا۔

لہذا اس سے جو چیز سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ وزیر اعظم کے برکس کے'کامیاب' دورے کے دوران یہ تاثر دیناتھا کہ مسائل کو حل کرنے میں ضروری پیش رفت ہورہی ہے۔اس سے دیگر مسائل اور مضمرات بھی سامنے آتے ہیں۔

اولاً یہ کہ ہندوستان کی برکس کے ساتھ شراکت موجودہ عالمی سیاسی صورت حال میں ایک حساس معاملہ ہے - روس کایوکرین پر حملہ اور چین کی روس کے ساتھ ' حد لامحدود شراکت داری' نے مغربی مخالفت کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ اس سے ہندوستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ نئی دہلی کوکسی سربراہ حکومت سے ملاقات کے لیےصرف 'اسٹریٹجک خودمختاری' کی دلیل کافی نہیں ہوگی اور یہی وہ بات ہے جو گشتی معاہدہ فراہم کرتا ہے، جو بنیادی طور پر برکس سربراہی اجلاس سے توجہ ہٹانے کا کام کرتا ہے۔

دوسرے، اب حکومت ہندمیں چینی سرمایہ کاری پر پابندیوں کو برقرار رکھنے کی صلاحیت کے بارے میں خدشات پیدا ہورہے ہیں، خاص طور پر جب ہندوستان ابھی بھی چین سے مینوفیکچرنگ ،سپلائی چینز اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر منحصر ہے۔ لہذا ایل اے سی پر ایک محدود معاہدہ بھی چین سے تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے آگے بڑھنے کا ایک عزت افزا راستہ فراہم کرتا ہے۔

دریں اثنا یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب اس معاہدے کا اعلان کیا گیا تو فوج منظر سے غائب تھی۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ آخری مرحلہ سفارت کاروں کو طے کرنا تھا لیکن یہ ایک عجیب بات ہے کہ ایک فوج جوعالمی سطح پر اسٹریٹیجک اور سفارتی تعلقات کے لحاظ سے اہمیت رکھتی ہو اس کے سینئر فوجی افسران اسٹیج سے غائب ہوں۔

یہ بات بطور خاص مضحکہ خیز ہے کیوں کہ اگر 2020 میں چینی تجاوزات کے جواب میں ہندوستان کا کوئی نمایاں کارنامہ ہے تووہ یہ ہے کہ اگست 2020 میں کیلاش کی چوٹیوں پر قبضہ کرنے اورتھوڑی مدت تک اس کو باقی رکھنے کےعلاوہ فوج کو مناسب ردعمل کی اجازت نہیں دی گئی۔ بلکہ ایل اے سی پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد بھی فوج کو اس کے بنیادی کردار یعنی جارحیت کا جواب دینے کو سفارتی سرگرمیوں کی وجہ سے محدود کردیا گیا تھا۔

چند اہم سوالات

شاید فوج یا حکومت یا دونوں نے طے کیا تھا کہ جیسے کو تیسا جواب دینا اشتعال انگیز ہوگا جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے خدشات صرف ہندوستان کو ہی کیوں لاحق ہوتے ہیں۔ یا یہ کہ چینی اقدامات کا مقابلہ کرنے کے متعدد منصوبوں کے دعووں کے فوج ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے درکار وسائل سے محروم تھی اور سیاسی قیادت نےمحض سرحدی انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنے جیسے تدریجی اقدامات پر توجہ مرکوز کرنے کو ترجیح دی۔ اس سے یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کمیاں کیوں موجود ہیں یا کسی بحران کے بغیر اہم انفراسٹرکچر کی ترقی کے نہیں ہوسکتی۔ جو بھی بات صحیح ہو ، یہ مسئلہ عوامی سطح پر زیر بحث نہیں آیا۔

اگر 2020 کے بعد ہندوستان میں کوئی 'آگے کی سمت' پیش رفت ہوئی ہے تو وہ اس معنیٰ میں ہوئی کہ 1962 کی طرح مشرقی لداخ کے واقعات نے ہندوستانیوں کی ایک یا دو نسلوں کو اس طویل المدتی چیلنج سے آگاہ کر دیا ہے جو چین ممکنہ طور پر ہندوستان کے مفادات کے لیے پیدا کرے گا۔

2020 کے واقعات کو اب کافی وقت گزر چکا ہے لہذا ملک کے لوگوں کو اس بابت اب مزید سوالات اٹھانے چاہئیں۔

چین نے جو کیا وہ کیوں کیا؟ وہ آگے کیا کر سکتا ہے؟ ہندوستانی ماہرین ان سوالات کا جواب دینے کی اہلیت کیوں نہیں رکھتے؟ اور اگر یہ مہارت موجود ہے، تو اسے بڑے پیمانے پر قبول عام کیوں حاصل نہیں ہوا؟ 2020 کے واقعات کےحوالے سے جواب دہی کے سوالات بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ ہندوستان کی طرف سے ایسی کون سی کوتاہیاں تھیں جن کی وجہ سے چینی تعمیرات پر انٹیلی جنس رپورٹ کو نظر انداز کیا گیا؟ عوامی احتساب کیوں سامنے نہیں آیا؟ ان سوالات اور ایسے یہ دیگر سوالات کے جواب کے بغیر، ہندوستان چین کے ساتھ اگلے سرحدی بحران کے لیے تیار نہیں ہوسکے گا۔

Original: Jabin T. Jacob. 2024. ‘A Patrolling Agreement and Some Questions’. Indian Express. 23 October. 

Translated by Abu Zafar

اس مضمون کا ترجمہ ابوظفر نے کیا ہے۔