...

27 January 2025

چینی تہذیب کی قدامت اور عالمی طاقت



سابق چینی صدر جیانگ زی من نے 1990 کی دہائی میں جب مصر کا سرکاری دورہ کیا تو اُنہیں پتہ چلا کہ مصری اپنی تہذیب کو پانچ ہزار سال پرانی قرار دیتے ہیں۔ ملک واپسی پر انہوں نے حکم دیا کہ چینی تاریخ، جو اس وقت تک غالباً تین سے چار ہزار سال پرانی تسلیم کی جاتی تھی، اُسے بھی مصری تہذیب کے ہم پلہ قدیم بتایا جائے۔گرچہ یہ واقعہ مستند نہ بھی ہو تب بھی اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بیجنگ دنیا کو کس زاویے سےدیکھتا ہے اور اس سے زیادہ اہم یہ کہ وہ اس میں اپنے مقام کا کس طرح تعین کرتا ہے۔

امریکہ اور اُس کی زیرِ قیادت مغربی دنیا کی جانب سے ہندوستان اور جاپان جیسی ایشیائی طاقتوں کے ساتھ جاری شدید جغرافیائی و سیاسی مسابقت کے اس دور میں، چین کی کمیونسٹ قیادت نے اپنی قدیم تہذیب کو اس بیانیے کے فروغ کے لیے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے کہ چین کا دنیا کی سب سے بڑی طاقت بننا ناگزیر ہے اور وہ بالآخر امریکہ کی جگہ لے گا۔ ان کے نزدیک 'عمر' یا 'قدامت' محض ایک عدد نہیں، بلکہ ایک امتیاز اور برتری کا دعویٰ بھی ہے — اور یہ عدد اُن کے حریفوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اگرچہ ہندوستان جیسی ہم مرتبہ تہذیب کے حوالے سے اس فرق کو نمایاں کرنا آسان نہیں ہے، لیکن چین اپنی برتری کے تاثر کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے، جس میں سے بعض نہایت لطیف ہیں اور بعض بالکل نمایاں۔

نوآموز امریکہ

یونانی تہذیب بھی چینی تہذیب اتنی ہی قدیم مانی جاتی ہے  اور یہی وجہ ہے کہ یونان اور چین نے 2017 میں "فورم آف اینشنٹ سیولائزیشنز" قائم کیا — مگر مغربی سیاسی و اقتصادی غلبے کا مرکز اب یونان نہیں بلکہ امریکہ ہے، جو بہرحال ایک "نیا" ملک ہے۔ چنانچہ چین امریکہ پر تنقید کرنے لگا ہے کہ اس کے یہاں وہ شائستگی، تہذیب اور برتاؤ نہیں ہے جو صرف قدیم تہذیبوں کا خاصہ ہے۔

یہ بات سب سے نمایاں طور پر مارچ 2021 میں اُس وقت سامنے آئی جب چینی کمیونسٹ پارٹی کے پولٹ بیورو کے رکن اور خارجہ امور کے سربراہ یانگ جیچی نے الاسکا کے شہر اینکریج میں نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کے ساتھ پہلے اعلیٰ سطحی مذاکرات کے دوران سخت لہجے میں بات کی۔ چینی وفد ٹرمپ دور کی سخت پالیسیوں سے نالاں تھااور بائیڈن کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آ رہی تھی۔ یانگ نے کہا:"ہمارا امریکہ کے بارے میں بہت اچھا گمان تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ امریکہ سفارتی آداب کی پابندی کرے گا"۔انہوں نے مزید کہا:" امریکہ کو چین کے سامنے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ طاقت کی زبان میں بات کرے"۔

اگرچہ شاید اس بات کا امریکیوں پر کچھ خاص اثر نہیں ہوا لیکن چین کے اندر اور اُن ممالک میں جو خود کو عظیم تہذیبیں سمجھتے ہیں، اس بیان کا مطلب واضح تھا۔ یعنی چین اپنی قدیم ثقافت اور تاریخ کی وجہ سے شدید دباؤ میں بھی سفارتی آداب کا خیال رکھ سکتا ہے۔ جب کہ امریکہ تاریخی لحاظ سے نئے ہونے کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر ہے۔ چنانچہ مذاکرات کی میز پر کمزور پوزیشن کے باوجود چین نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ امریکہ سے برتر ہے۔

ماضی کا ایک طویل سفر

یہ اشارے محض اتفاقیہ نہیں ہیں۔ ماؤ زے تنگ جنہوں نے چین کےثقافتی انقلاب کے دوران چینی ورثے اور آثار قدیمہ کو بڑی حد تک مٹا دیا تھا، کے اسلوب کے بالکل برعکس، موجودہ چینی صدر اور کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری شی جن پنگ نے اپنےحالیہ پیش روؤں کی راہ پر چلتے ہوئے چینی تاریخ اور ثقافت کو نہ صرف اپنایا بلکہ اسے حکومت کی بقا اور اس کاجواز ثابت کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔انہوں نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک بارہا "چینی روایتی ثقافت" اور "چینی حکمت" کو نمایاں طور پر پیش کیا ہے، اور اب "ثقافت پر اعتماد" اور "تاریخ پر اعتماد" چین کے "اعتماد کے نظریے" کا حصہ بن چکے ہیں۔

اکتوبر میں لاوس میں ہونے والے 27ویں آسیان پلس تھری اعلیٰ سربراہی اجلاس میں چینی وزیرِاعظم لی چیانگ کی یہ اپیل  کہ "ایشیائی شعور کو مضبوط بنایا جائے" اور "مشرقی حکمت کو بہتر انداز میں بروئے کار لایا جائے" — دراصل چینی ثقافتی اعتماد اور "چینی حکمت" کو عالمی سطح پر پیش کرنے کی کوشش ہے، جو پرانے "ایشیائی اقدار" کے تصور کا تسلسل ہے۔

تاریخ کے میدان میں محاذ آرائی

لیکن سوال یہ ہے کہ چین ہندوستان کے مقابلے میں جو خود ایک ہم پلہ قدیم تہذیب ہے، اپنی برتری کا دعویٰ کیسے کرتا ہے؟اس کے لیے چین کم از کم تین طریقے اختیار کرتا ہے، جن کے ذریعے وہ ہندوستان کی تاریخی حیثیت کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

 اولاَ،گرچہ چینی بیانات اور سرکاری دستاویزات میں مسلسل یہ کہا جاتا ہے کہ "چین اور ہندوستان دونوں قدیم تہذیبیں ہیں" جن کی "طویل تاریخ" ہے، لیکن اس میں ایک محتاط اور بتدریج تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک طرف تو چین دونوں ممالک کو "ہم عمر" یا "مساوی قدیم" کہتا ہے، اور دیگر قدیم تہذیبوں کو بھی تسلیم کرتا ہے، لیکن دوسری طرف خاص طور پر چین کو "پانچ ہزار سال سے زیادہ قدیم" کہہ کر الگ نمایاں کیا جاتا ہے۔

رفتہ رفتہ ہندوستان اور چین کے تعلقات سے متعلق عوامی دستاویزات میں ہندوستان کی قدیم تاریخ کا ذکر کم ہوتا جا رہا ہے، جب کہ  " پانچ ہزار سال  قدیم چینی تہذیب " کا بار بار حوالہ دیا جاتا ہے۔ چین کی "امن و ہم آہنگی کی جستجو" کو بھی اکثر اس کی "پانچ ہزار سالہ تاریخ" کا نتیجہ بتایا جاتا ہے، مگر اسی طرح کا کوئی بات ہندوستان کے بارے میں نہیں کی جاتی۔

چین کا دوسرا طریقہ پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہے۔ حالیہ برسوں میں جب ہندوستان نے بھی عالمی سطح پر اپنی تہذیبی پہچان  پر مبنی اصطلاحات کو استعمال  کرنا شروع کیا  تو چین نے اس پر کھلے عام اعتراض کیا ۔ چین کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ اس طرح کی  زبان کتنی مؤثر ہو سکتی ہے۔ اسی لیے اس نے 2023 میں ہندوستان کی میزبانی میں ہونے والے G20 اجلاس میں "وسودھیو کٹمبکم" (یعنی: پوری دنیا ایک خاندان ہے) جیسے الفاظ کے استعمال پر اعتراض کیا۔اس کے علاوہ چین کے صدر شی جن پنگ نے ستمبر 2023 میں دہلی میں منعقدہ G20 سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی — ممکنہ طور پر اس لیے کہ اس موقع پر ہندوستانی وزیرِاعظم مرکزِ نگاہ ہوتے، اور شی جن پنگ محض دیگر رہنماؤں کی طرح عام شرکاء میں شامل نظر آتے۔ اُن کی جگہ چین نے ان کے اپنے وزیرِاعظم کو بھیجا۔

تیسرے، چین واضح طور پر یہ تاثر دیتا ہے کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی خود مختار نہیں ہے۔ چینی نمائندوں کا دعویٰ ہےکہ ہندوستان امریکہ کو چین کے خلاف استعمال کر رہا ہے اور یہ کہ ہندوستان امریکہ کا اتحادی بن کر چین کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے۔ہندوستان کو ایک ایسا ملک ظاہر کرنا جو بیک وقت امریکہ کا استعمال بھی کر رہا ہے اور اُس کا تابع بھی ہے، کا مقصدیہ ہے کہ ہندوستان کی  شناخت کو بطور ایک قدیم تہذیب، جو چین کے ہم پلہ ہو، کو کمزور کیا جائے۔ کیوں کہ وہ اب اپنے بل بوتے پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہا اور اُسے کسی طاقتور ملک پر انحصار کرنا پڑرہا ہے۔

درحقیقت اس رویہ کا ایک طویل تاریخی پس منظر ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں جب چینی مفکر کھانگ یوویئی (Kang Youwei)جلاوطنی کے دوران دارجلنگ میں مقیم تھے، تو انہوں نے ہندوستان کے نوآبادیاتی غلامی میں چلے جانے کو چینی عوام کے لیے ایک تنبیہ کے طور پر پیش کیا اور اسے داخلی اصلاحات پر زور دینے کے لیے استعمال کیا۔ ان کی تحریروں نے بعد میں چین میں ہندوستان کے بارے میں پائے جانے والے نقطۂ نظر پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

ماضی کی روشنی میں مستقبل کی راہ معین کرنا

یہ بات قابلِ غور ہے کہ چینی دانشور اور سفارت کار بظاہر ہندوستان کی 'اسٹریٹجک خودمختاری' کا ذکر تو کرتے ہیں، لیکن اس کی خارجہ پالیسی میں اُس کی حقیقی خودمختاری کو نہایت آسانی سے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس رویّے کی ایک بڑی وجہ چینی کمیونسٹ پارٹی کا نظریاتی عالمی تصور ہے، جس کے تحت وہ خود کو دنیا بھر کی آزاد اور جمہوری حکومتوں کے ساتھ ایک وجودی تصادم میں دیکھتی ہے۔ چین کے خارجہ پالیسی سازوں کے لیے "چین بمقابلہ امریکہ" کا ایک سادہ سا تصوراتی اور عملی فریم ورک زیادہ سہل اور مؤثر ہوتا ہے، کیوں کہ اس کے تحت وہ ہر اُس ملک کو، جو کسی بھی وجہ سے چین کی مخالفت کرے، باآسانی امریکہ کا ایجنٹ یا اُس کے اشارے پر چلنے والا قرار دے سکتے ہیں۔

انہی وجوہات کی بنا پر چین کے ذریعہ حالیہ برسوں میں شروع کیے گیے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی تین نئی ذیلی شاخوں میں سے ایک گلوبل سولائزیشن انیشیٹو (GCI) کو زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ منصوبہ بظاہر "مختلف تہذیبوں کی گوناگونی اور خوبصورتی" کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن درحقیقت GCI کو "قدیم چینی حکمت سے ماخوذ روایتی چینی ثقافت" کی نمائش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اور جہاں یہ "برابر مکالمے اور باہمی احترام" کی بات کرتا ہے لیکن عملی طور پر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام تہذیبیں چین کی تہذیب کے ہم پلہ ہیں۔

لہٰذا GCI محض ایک تخیلاتی تصور نہیں ہے جس کا کوئی عملی نتیجہ نہ ہو بلکہ یہ چین کے داخلی سیاسی بیانیے اور اقدامات کو اس کی خارجہ پالیسی سے جوڑنے کا ایک قریبی اور واضح ذریعہ ہے۔ اور اب تک چین نے جو بھی اقدامات کیے ہیں، اُن میں سب سے زیادہ یہی اقدام اُس کے ثقافتی برتری کے احساس کو پہلے سے کہیں زیادہ نمایاں اور موثر انداز میں پیش کرتا ہے۔ ہندوستان اور باقی دنیا کی جانب سے ان پیش رفتوں کو نظر انداز کرنا اور ان کا مؤثر جواب نہ دینا دراصل عالمی سیاست میں اُبھرنے والی ایک نئی قسم کی نرم بالادستی سے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہے۔


Original: Jabin T. Jacob. 2024. ‘For China, Age is More than a Number’. India’s World. 9 December.
Translated by Abu Zafar